چھپا دشمن

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کی ویب سائٹ (nih.org.pk) پر جاری ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان ’تپ دق (ٹی بی)‘ کے لحاظ سے دنیا کا 5واں بڑا متاثرہ ملک ہے جبکہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق پاکستان میں ہر سال 5 لاکھ صحت مند افراد ’ٹی بی‘ سے متاثر ہوتے ہیں اور اِس سے بھی اہم بات یہ کہی گئی ہے کہ پاکستان میں چونکہ ’ٹی بی‘ کے مریض اپنا علاج شروع کرنے کے بعد اُسے مکمل نہیں کرتے اِس وجہ سے ’ٹی بی‘ کا باعث بننے والا جرثومہ اُن ادویات کے خلاف مدافعت حاصل کر چکا ہے یعنی وہ ادویات جو دیگر ممالک میں تپ دق (ٹی بی) کے علاج میں کارگر ثابت ہوتی ہیں پاکستان میں اُن کے استعمال سے خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے۔ پاکستان کی وزارت صحت اور عالمی ادارہ¿ صحت کے فیصلہ سازوں میں اِس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ ’ٹی بی‘ کے خلاف عوامی شعور اُجاگر کرنے کے لئے سال میں کوئی ایک دن منانا کافی نہیں بلکہ پورا سال اِس سلسلے میں جوش و خروش سے کوششیں کرنا ہوں گی۔ اعدادوشمار سے عیاں ہے پاکستان یوں تو کئی متعدی بیماریوں سے متاثر ہے لیکن ’ٹی بی‘ کے لحاظ سے اِس کا پانچواں نمبر کسی بھی صورت مثالی کارکردگی نہیں بالخصوص ایک ایسی صورتحال کہ پاکستان ہر سال دنیا میں منظرعام پر آنے والے کل ’ٹی بی‘ کیسز میں سے دو تہائی نئے کیسز کے لئے ذمہ دار ہے اور ظاہر ہے کہ یہ طرزعمل ذمہ دارانہ رویئے کی عکاسی نہیں کرتا۔ ٹی بی کے مرض اور غربت کے درمیان تعلق موجود ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ سرمایہ دار (ترقی یافتہ) ممالک میں ’ٹی بی‘ کی شرح ہر ایک لاکھ آبادی کی آبادی میں 10 افراد سے بھی کم ہے جبکہ پاکستان میں یہ تعداد تشویشناک حد تک زیادہ ہے اور ہر ایک لاکھ افراد میں ایک سو زیادہ افراد ٹی بی کا شکار پائے جاتے ہیں۔ ’ٹی بی‘ مائیکوبیکٹیریا تپ دق (ایم ٹی بی) نامی بیکٹیریا کی وجہ سے لاحق ہوتا ہے اور اِس مرض کی تاریخ پانچ ہزار سال پرانی ہے۔ مصر سے حنوط شدہ لاشوں (ممیوں) کے ڈی این اے تجزیے میں پایا گیا کہ اُن میں بھی ٹی بی کے جرثومے موجود تھے۔ ٹی بی کی وجوہات‘ تشخیص‘ علاج اور روک تھام پر سائنسی تحقیق کے باوجود‘ اِس کا پھیلاو¿ پاکستان جیسے کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں نہ صرف مسلسل جاری ہے بلکہ اِس سے آبادی کی بڑی تعداد تشویش ناک حد تک متاثر ہے۔ ٹی بی کا باعث بننے والا ’ایم ٹی بی‘ جرثومہ دیگر بیکٹیریاز کی طرح‘ وار کرتا ہے اور ایک متاثرہ شخص سے دوسرے میں منتقل ہوتا ہے لہٰذا معالجین تجویز کرتے ہیں کہ ’ٹی بی‘ کے مریض کو منہ پر رومال رکھ کر کھانسنا چاہئے اور اُسے جگہ جگہ تھوکنے 
بالخصوص بلغم اُگلنے سے گریز کرنا چاہئے جو اِس مرض کی دو واضح علامات ہیں کہ متاثرہ شخص کو بہت زیادہ کھانسی آتی ہے اور اُس کی کھانسی میں بلغم بھی شامل ہوتا ہے۔ 1950ءکی دہائی میں متعارف کرائی جانے والی انسداد ِٹی بی ادویات کئی دہائیوں تک مو¿ثر رہیں لیکن ناتجربہ کار ڈاکٹروں کے نسخے یا مریضوں کی طرف سے تجویز کردہ علاج معالجے کی مدت و طریقے کی عدم تعمیل کے باعث ٹی بی کا جرثومہ اپنے خلاف ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا کر چکا ہے اور اِس سے ایک خوفناک صورتحال پیدا ہوئی ہے اور صورتحال یہ ہے کہ ’ٹی بی‘ کے مریض پر اب عمومی دوا اثر نہیں کرتی جبکہ زیادہ اثر رکھنے والی نئی ادویات قیمت میں مہنگی ہونے کی وجہ سے ہر شخص کی قوت خرید میں نہیں جبکہ یہ ضمنی طور پر زہریلے اثرات بھی رکھتی ہیں۔ ’ٹی بی‘ کا جرثومہ مضبوط 
جراثیم ہے۔ یہ ہوا میں کئی گھنٹوں تک معلق اور زندہ رہ سکتا ہے جب تک کہ ہوا سے اڑ نہ جائے اور دیگر جرثوموں کے مقابلے یہ درجہ حرارت یا نمی جیسی سختیاں بھی برداشت کرتے ہوئے کسی سطح پر کئی دنوں تک زندہ رہ سکتا ہے۔ ٹی بی سے متاثرہ شخص کے کھانسنے‘ چھینکنے یا بولنے پر ’ٹی بی‘ کے کئی ہزار اور بعض صورتوں میں کئی لاکھ جرثومے جرثومے اردگرد کے ماحول میں پھیل جاتے ہیں اور یہ ایسے صحت مند لوگوں کو فوری دبوچ لیتے ہیں جن کا مدافعاتی نظام کمزور ہو یا وہ پہلے ہی کسی بیماری سے متاثر ہوں لیکن اِس قدر زیادہ مقدار میں ’ٹی بی‘ اُگلنے کے باوجود بھی‘ حوصلہ افزا¿ حقیقت اعداد و شمار سے ظاہر ہے کہ ٹی بی کے جرثوموں کی زد میں آنے والے ہر تین افراد میں سے صرف ایک ہی اِس کا شکار ہوتا ہے لیکن جب وہ متاثر ہوتے ہیں تو اِس مرض کی علامات ظاہر ہونے میں ایک تہائی یا دو سال کے اندر اِس بیماری کی علامات ظاہر ہوتی ہیں اور اِس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ’ٹی بی‘ کا جرثومہ انسانی جسم میں داخل ہونے کے بعد مدافعاتی نظام کے کمزور ہونے کا انتظار کرتا ہے۔ اگر کسی بظاہر صحت مند شخص کے جسم میں ’ٹی بی‘ کا جرثومہ داخل ہو جائے اور وہ شخص کسی صدمے یا تناو¿ کا شکار ہو تو یہ جرثومہ فوراً حملہ آور ہو جاتا ہے۔ ایسے مریض بھی پائے گئے جن کے جس میں یہ جرثومہ دس برس تک رہنے کے باوجود نقصان نہیں پہنچاتا لیکن اپنی افزائش کرتے ہوئے اُس بظاہر صحت مند شخص کے اردگرد لوگوں کو متاثر کرنے کا باعث بن رہا ہوتا ہے۔ معالجین تجویز کرتے ہیں کہ اگر کسی شخص کو 3 ہفتے تک مسلسل کھانسی ہوتی رہے‘ کھانستے ہوئے چھاتی میں درد محسوس ہو‘ کھانسی کے ساتھ بلغم میں سرخ ذرات یا خون واضح آئے تو ایسے شخص (مرد یا عورت) کو چاہئے کہ وہ بلاتاخیر و حجت کسی قریبی سرکاری ہسپتال یا مستند لیبارٹری سے ’ٹی بی سکریننگ ٹیسٹ‘ کروائے اور ازخود یا کسی غیرمستند و غیرمتعلقہ ڈاکٹر کی تجویز کردہ ادویات کسی بھی حالت میں استعمال نہ کرے کیونکہ اِس سے مرض پیچیدہ شکل اختیار کر جاتا ہے۔