خزانہ خزانے 

اب تو وہ باتیں گئی غرق ہی ہو گئیں ۔بچپن میں ہم اس قابل تھے کہ کچھ جمع کر لیتے تھے۔وہ بھی ہفتہ بھر کےلئے۔ایک مٹی کی گول گڈوی نما جیسے تھوڑا بڑا گیند ہو اس کے اوپر سے نوٹ اندر گرانے کے لئے لمبوترا سا سوراخ ہوتا ۔ہم اس میں کچھ نہ کچھ ڈال دیتے تھے ۔ اس کو اردو میں ڈھولکی پشتو میں خزانہ اور ہندکو میں گولخ کہتے ہیں ۔گھر سے جو بھی ملتا اس میں ڈال دیتے ۔ بازار سے لینے کی چیزوں کی قربانی دیتے ۔خود کچھ نہ کھاتے اور جو ملتا اسی گولخ میں ڈال دیتے ۔بڑی ہمت والے بچے تین تین مہینے اسی خزانہ میں پیسے جمع کرتے ۔اس دوران میں چھوٹی عید آ گئی یا کسی کے گھر گئے یا گھر میں کوئی مہمان آیا تو اس کو لالچ بھری نگاہ سے دیکھتے کہ اب یہ جیب کو کجھائے اور کچھ نکال کر دے تو وہ بھی جا کر اپنی گولخ میں ڈال دیں۔مگر ہم تو نہ اس وقت کچھ جمع کر پائے اور نہ اب یہ عادت ہے کہ اپنی ڈھولکی نہ سہی اپنا بینک اکا¶نٹ ہی کو بھاری بھرکم رکھ سکیں ۔مہینہ وار جو رقم وصول ہوتی ہے وہ بینک کے اکا¶نٹ میں سے پانچ تاریخ تک صفا چٹ ہو جاتی ہے ۔کیونکہ خرچے ہی اتنے ہیں اور پھر لازمی ہیں او رمہنگائی کے عالم میں کہ ان میں سے کسی خرچے کو اب اگنور نہیں کر سکتے۔مٹی کی گولخ تھی ۔اب بھی بازاروں میں دیکھتا ہوں تو ہنسی آتی ہے کہ بچے کتنے معصوم ہوتے ہیں۔ان کو معلوم نہیںہوتا کہ گولخ میں پیسے جمع کرنے کا یہ کھیل انسان کے دل میں لالچ پیدا کرتا ہے جو اس زمانے میںہمارے جی میں پیدا ہوتی تھی ۔وہ یہ کہ جہاں سے بھی رقم یا سکے ہاتھ لگیں اسی گولخ میںڈال دیں۔ہمارا تو بچپن گیا خاک ہوا مگر اب جو ہمارے بچے ہیں ۔ وہ جب چھوٹے تھے تو ان کی گولخیں ان کی مرضی کے خلاف ہم نے خود ان سے درخواست کر کے ان کی ماں کو بیچ میں ڈال کر بطور جرگہ ان سے توڑنے کو کہا ۔کیونکہ یہاں ہماری جیب خالی ہوجاتی تو کہاں سے اور رقم آتی‘ سو بچوں کی گولخیں بھی ہم نے اپنی ریکوئیسٹ پر توڑ دیں ۔پھر ان بچوں کوخدا اور دے او راس سے زیادہ دے ۔انھوں نے ماں نے کہنے پر کہ باپ کی جیب خالی ہے تم دے دو پھر جب پیسے آجائیںابو سے لے لینا ۔انھوں نے یہ قربانی دے دی ۔ آج کل کے بچے تو پاپڑسلانٹی اور دیگر کھانے پینے کی چیزیں لینے کے لئے بیتاب ہوتے ہیں۔یہاں پیسے ملے وہاں وہ دوڑ کرگھر سے نکلے اورجنرل سٹور والے کے پاس کھڑے ہوتے ہیں۔یہی خزانہ ہوتا تھا جس کو ذہن میں لاشعوری طور پھر رکھتے ہوئے اس زمانے کے بعض بچے مجھے اب بھی یاد ہے کہ نویں کلاس میں ہوتے اور ان کا بینک اکا¶نٹ ہوتا تھا ۔پاس بینک ہوتا جتنے پیسے ملتے جا کر وہاںجمع کروا آتے ۔ اس پر ان کو سرخ رنگ کی چھوٹی کتاب نما ایک بُک سی مل جاتی ۔ میں نے بھی یہ کوشش کی مگر بیکار ثابت ہوئی ۔بلکہ ہمارا تو اکا¶نٹ ہی بند ہوگیا کیونکہ کچھ بچے گا جو جا کر جمع کروائیں گے۔ا س بُک میں پیسوں کی ہر انٹری موجود ہوتی ۔مگر اس کاایک سائیڈ ایفیکٹ کہہ لیں جو میں نوٹ کر پایا کہ وہ بچے جن کے ساتھ ہمارا کھیلنا کھالنا تھا وہ اپنے گولخ میں پیسے جمع کرتے توان میں کنجوسی بہت زیادہ پائی جاتی تھی ‘جو اب بوڑھے ہو جانے پر بھی ان میں پائی جاتی ہے ‘وہ کسی دوسرے بچے پر خرچ کیوں کریں کیوں نہ خود نہ کھائیں جا کر اپنے خزانہ میں پیسے ڈال دیں۔جب ہم بر سرِ روزگار ہوئے تو بعض اوقات میں اتنے حالات خراب ہوتے کہ صبح ناشتے کےلئے کچھ نہ ہوتا ۔ ایسے عالم میںرات کی روٹی کو صبح گھی میں تل کر کھاتے ۔یہ اس زمانے کا بہت عام سا اور انتہائی غریبانہ ناشتہ ہوتا ۔کسی کو کہہ سکنے کے قابل نہ ہوتے کہ ہم نے صبح یہ ناشتہ کیا اور آفس آئے ہیں ۔ مگر یہی ناشتہ آج کا پُر تعیش ناشتہ ہے ‘ آج گھی کی قیمت دیکھیں کہا ںپہنچ گئی ہے۔دودھ کو ن سا سستا ہے ۔روٹی بھی تومہنگی ہے پھر پاپڑ کی طرح ہے ۔شہر سے باہر بیس کی ہے او رشہر کے اندر نسبتاً موٹی روٹی تیس میں ہے ‘آج شہر میں سو روپے کی تین روٹیاں آئیں گی ۔مگر میں جس زمانے کی بات کر رہا ہوں اس دور میں تو سو روپے کی نو سو روٹیاں ملتی تھیں۔ کیونکہ آج بھی جا کر ہم ہی تندور سے روٹی لاتے ہیں اور اس زمانے میں بھی ہم اپنی ننھی جھولی میں روپے کی آٹھ موٹی تازی روٹیاں لاتے تھے بلکہ ایک روٹی اس کو مفت میں چنگا یعنی پیکیج کہہ لیںکے طور پر ملتی تھی۔