میڈیا رپورٹس کے مطابق پاک افغان بارڈر پر سرحدی قصبے طورخم میں چنددن قبل ہونے والی لینڈ سلائیڈنگ کے مقام پر ریلیف اور ریسکیو آپریشن کامیابی سے مکمل کر لیا گیا ہے اور تمام 8افراد کی لاشیں نکال کر لواحقین کے حوالے کر دی گئیں ہیں۔ لینڈ سلائیڈنگ کے نیچے پھنسے 20 ٹرکوں اور 13 کنٹینرز کو بھی نکال لیا گیا ہے‘ ڈپٹی کمشنر خیبر آفس کے ترجمان کی جانب سے میڈیاکوجاری کردہ بیان میں کہاگیا ہے کہ پاکستان آرمی کے انجینئرز، ریسکیو 1122، پشاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی، خیبر ضلعی انتظامیہ اور دیگر امدادی اداروں نے ریلیف اور ریسکیو آپریشن میں حصہ لیا انہوں نے واضح کیا کہ افغانستان سے لوڈرز سمیت مشینری کرائے پر لی گئی تھی۔ طورخم پر تجارتی راستہ اور سڑک پہلے ہی ٹریفک کے لیے کھول دی گئی ہے قبائلی عمائدین اور ٹرانسپورٹرز نے طورخم پر ریسکیو اور ریلیف آپریشن کی بروقت تکمیل پر پاک فوج اور ریسکیو ورکرز کا شکریہ ادا کیا ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ منگل کو طورخم کے مقام پر دو درجن سے زائد ٹرک مٹی کے تودے کی زد میں آگئے تھے جس سے تین افراد موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے تھے اور متعدد ملبے تلے پھنس گئے تھے
جنہیں ریسکیو کارکنوں نے سرچ آپریشن کے دوران ملبے سے نکال کر ان کی لاشیں متاثرہ خاندانوں کے حوالے کردی ہیں۔ ڈپٹی کمشنر خیبر نے بتایا ہے کہ طورخم لینڈ سلائیڈنگ میں جاں بحق ہونے والے تمام افغان شہری تھے۔ دریں اثناء کور کمانڈر پشاورلیفٹیننٹ جنرل
حسن اظہر حیات نے لینڈ سلائیڈنگ کے مقام کا دورہ کیا جہاں انہوں نے پاک فوج اور دیگر اداروں کے جاری ریسکیو اینڈ کلیئرنس آپریشنز پراطمینان کااظہارکیا‘پاک فوج کی اربن سرچ اینڈ ریسکیو ٹیموں نے دوران ریسکیوآپریشن سرچ کیمروں، ریسکیو ریڈارز، کٹر اور لائف لوکیٹر کا استعمال کیاجس کے نتیجے میں ملبے تلے دبی لاشوں کاپتہ چلنے کےساتھ ساتھ 12 افراد کو زندہ بھی نکال لیا گیا۔پیر کے روز وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر جیولوجیکل سروے آف پاکستان کی پانچ رکنی ٹیم نے بھی طورخم بارڈر کا دورہ کیا اور لینڈ سلائیڈنگ کے مقام کا معائنہ کیا ‘ بات قابل ذکرہے کہ خیبرپختونخوا کے گورنرحاجی غلام علی اور نگران وزیر اعلیٰ محمد اعظم خان نے بھی جائے حادثہ کا دورہ کیا اور ٹرک مالکان اور جاں بحق ہونے والے خاندانوں کو معاوضہ دینے کا وعدہ کیا۔ ضلع خیبر کے ڈپٹی کمشنر عبدالناصر کا کہنا ہے کہ حادثے کی جگہ پر 45 اور 50 ٹن وزن اٹھانے والی کرینیں موجود تھیں لیکن ایمرجنسی میں انہیں80 ٹن وزن اٹھانے والی کرین کی ضرورت تھی۔بقول ڈپٹی کمشنرکے مسئلہ یہ تھا کہ ان کے پاس یہ کرین ترنول میں موجود تھی اور وہاں سے طورخم لانے میں بہت زیادہ وقت لگ سکتا تھا اس وجہ سے افغانستان کی ایک نجی کمپنی سے یہ کرین فراہم کرنے کے لیئے بات کی گئی اور ہم نے پیشگی رقم ادا کر کے اس کی خدمات حاصل کیں۔انہوں نے بتایا کہ افغانستان کی نجی کرین کمپنی کو ضلع خیبر انتظامیہ نے ایڈوانس میں یومیہ کے حساب سے پانچ لاکھ روپے ادا کیے ہیں۔اس پرریسکیو
1122 کے ترجمان بلال فیضی نے میڈیاکو بتایا کہ آپریشن کے لیے انہوں نے 50 ٹن وزنی دو کرین طور خم پہنچانے کا کہا تھا لیکن پشاور سے طورخم پہنچنے میں ان کو کئی گھنٹے لگ گئے تھے جس میں ایک کرین طورخم پہنچی تھی جبکہ دوسری راستے میں خراب ہو گئی تھی۔بلال کے مطابق پاکستان افغان شاہراہ پر مال بردار گاڑیوں کی لمبی قطاروں کی وجہ سے سڑک کا ایک حصہ مکمل طورپربند تھالہٰذا اس حالت میں پشاور یا کسی دوسرے شہر سے کرین طورخم پہنچانا مشکل تھا اس لیے افغانستان کی کمپنی سے بات کی گئی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان سے کرین پہنچنے میں 10 منٹ لگے چونکہ یہ ایک آسان حل تھا اس لیے رقم دے کر اس کرین کوکرایہ پر استعمال کے لیے حاصل کیا گیا‘متذکرہ واقعے میں لینڈ سلائیڈنگ سے ہونےوالے جانی اور مالی نقصان سے قطع نظر اس ناگہانی آفت سے نمٹنے میں متعلقہ اداروں بالخصوص پاک فوج، ریسکیو 1122 ،ضلع خیبر کی سول انتظامیہ اور سب سے بڑھ کر مقامی قبائل نے جس جرات اور پیشہ ورانہ اخلاص کا مظاہرہ کیا وہ انسانیت دوستی کا ایک بہترین نمونہ تھا جس پر یہ تمام ادارے تعریف اور مبارکباد کے مستحق ہیں۔