خوشبو اور پھر چاولوں کی

چاول تو بعض حالات میں کہ بندہ کو ہائی بلڈ پریشر ہو ویسے جان لینے والی چیز ہیں۔مگر ہمارے پشاو رکے پشوری تو میوہ چنا چاولوں پر جان دیتے ہیں۔پھر مونگ والے چاول یعنی ماش پلاؤ پر تو جان چھڑکتے ہیں۔پشوریوں میں یہ دو اقسام بہت پسند کی جاتی ہیں۔حالانکہ چاول جو بھی ہوں دل چسپی سے کھائے جانے والی چیز ہیں۔پھر قدرت نے اس میں کیا کمال رکھا ہے کہ اس کو ہر قوم میں  بہت پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔بلکہ بعض تو لالچ کی آنکھ سے بھی تاکتے ہیں۔چنا میوہ جس کوپشوری ہندکو زبان میں جھلا پلاؤ کہتے ہیں۔یعنی پاگل کردینے والے چاول ان کا من بھاتا کھاجا ہے۔پھر اگر چاول نہ ہوں تو ٹوٹا چاول یا شولا کہہ لیں۔یہ تو جیسے شعلے کی طرح آنکھوں میں بھوک کی آگ بھڑکا دیتے ہیں۔بڑے شوق سے کھائے جاتے ہیں۔ جسے پشتو میں غٹے روجے کہا جاتا ہے ہر زن و مرد اور کس و ناکس اس کی زلف گرہ گیر کا قیدی ہے۔اس سے عشق کی حد تک محبت کرتے ہیں۔محبت بھی اتنی کہ اسے کھا ہی جاتے ہیں۔زلف کی درازی کا یہ سلسلہ سفید چاولوں سے شروع ہوتا ہے اور ملک بھر میں ہر طرح کے چاول نت نئے انداز سے کھائے جاتے ہیں۔ بلکہ صاحبِ حیثیت لوگ تو سالم دنبہ کی انتڑیاں نکال کر اس میں چاول دم کرتے ہیں۔  جو صرف اپنی خوشبو ہی سے شوقین حضرات کا دم نکال دیتے ہیں۔پھر اگر چاولوں کو ٹھیک طریقے سے دم لگا ہو اورپتیلے کے سرپوش کو کپڑے سے لپیٹ کر چاول دم کئے جائیں او ر وہ سلونے ہوں تو اس کا یہ ترسکن انداز بڑے بڑو ں کا پرہیز آنِ واحد میں توڑ کر ایک طرف رکھ دیتا ہے۔ بد پرہیزی کرنے والا کہے گا اس بار کھا لیتا ہوں کل سے پرہیز شروع کردوں گا۔مگر وہ کل کبھی نہیں آتا۔آج کے زمانے ہی میں کتنے کل آ کر گزر جاتے ہیں۔مگر وہ آنے والا کل آ نہیں پاتا۔ کیونکہ چاول ہیں ایسی شئے کہ بندہ لاکھ برا چاہے کہ میں چاول پسند نہیں کرتا مگر وہ دل میں چاولوں کو اچھا کہتا ہے اور نہ صرف کہتا ہے بلکہ موقع ملے تو اس پر ہاتھ یو ں صاف کرتا ہے کہ انگلیوں سے کھا کر اپنی انگلیاں تک چبا لینے کی حُب اس کے من میں موجود ہوتی ہے جو کسی بھی محبوب کھانے کے لئے ہوسکتی ہے۔پھر چاولوں سے زیادہ کون سا طعام محبوب ہوگا۔کشمیر میں سفید چاول بڑی خوشی سے کھائے جاتے ہیں۔ان پر اگر کوئی دال ڈال دیں تو یہ سونے پہ سہاگہ والا کام ہوگا۔ مگر سفید چاول ہر جگہ اس کے علاوہ بھی تناول فرمائے جاتے ہیں۔چونکہ ہم خو دبھی میر کشمیری ہیں سو ہمیں سفید تو کیا کسی سالن کے بچ جانے پر یا اس میں گرم مصالہ زیادہ ڈال دینے پر اگر چاول کالے بھی ہو جائیں تو ہم وہ چاول ہاتھ سے جانے نہیں دیں گے۔علامہ اقبال کو بھی خشکہ چاول بہت پسند تھے کیونکہ وہ کشمیری تھے۔کوئی دال ہاتھ نہ لگے تو چاولوں پر شلجم مٹر آلو کدو ٹنڈے کچھ بھی ڈال کر کھائیں اور چبانا شرط نہیں سالم ہی نگلتے  جاویں۔بعض گھرو ں میں توجس دن چاول پکنے لگتے ہیں چاولو ں کی خوشبو ایڈوانس میں پورے گھر میں پھیل جاتی ہے۔جب چولھے پر چاولوں کا پتیلا دھرا جائے تو گھر کے بچے بڑے آنے بہانے کچن کے باہر کھڑے ہو کر پوچھتے ہیں کیا چاول پک گئے۔کس وقت تک تیار ہوں گے۔بلکہ گھنٹہ یا دو گھنٹے قبل ان کو پلاسٹک کے بڑے پیالے میں بھگو کر بھی رکھ دیں تو یہ خوشبو دینے لگتے ہیں۔بلکہ سجاد بابر کے شعر کے مطابق ان کی خوشبو دکھائی بھی دینے لگتی ہے۔”کرن بھی اُترے تو آہٹ سنائی دیتی ہے۔میں کیا کروں مجھے خوشبو دکھائی دیتی ہے“۔کہیں کسی آستانے پر لنگر کے چاولوں کا اپنا ایک جدا لطف ہوتا ہے اس میں تو بریانی کا ذکر الگ سے ہے جو ہمارے ہاں کراچی کی ڈش کے طور پر پشاور میں اور اب ہر جگہ چاولوں کے نام پر کھائی جاتی ہے اور فروخت کی جاتی ہے۔ ایک بار تو میں نے بھانجے کو لیا۔ گھر میں بیٹھ کر بریانی کوتھیلیوں میں فی کس کے حساب سے بھرا۔ٹیکسی میں لاد کر فلاحی مقصد کے تحت ان کو ایک جگہ تقسیم  کرنے لگے وہاں تو ہماری بریانی کی کیا اہمیت جہاں بریانی کی تیار دیگیں تقسیم کرنے کے لئے فروخت کی جاتی ہیں۔ وہاں پہنچے تو آہستہ آہستہ تھیلیاں بڑے تھیلے سے نکالیں تو کونوں کھدروں سے لوگ نکل کر ہماری طرف یوں جھپٹے جیسے شیر جنگل میں اپنے شکار کی جانب لپکتا ہے۔میں نے اپنے ہاتھ سے تقسیم کرنا چاہا تھا مگر میرے تو ہاتھ سے چھین رہے تھے۔ سو میں بھاگ کر ایک طرف ہو گیا اور بھانجے کو آگے کر دیا۔