اب وہ لوگ کہاں؟

ایک عرصے سے دنیا میں قائد اعظم‘ لیاقت علی خان‘ابراہام لنکن جارج واشنگٹن ونسٹن چرچل جنرل ڈیگال‘ نیلس مینڈیلا جولیس نیارارے‘ مارشل ٹیٹو سوئیکارنو‘فیڈل کاسترو‘امام خمینی ماوزے تنگ‘ چو این لائی اور ہو چی من جیسے سیاسی رہنما پیدا نہیں ہو رہے کہ جن کی مالی دیانتداری مسلم تھی‘ جن پر کبھی بھی کسی مالی بد دیانتی کا داغ نہیں لگا حالانکہ وہ اپنے اپنے ملک میں عرصہ دراز تک ایوان اقتدار کا حصہ رہے دنیا سے گئے ہوئے ان کو کافی عرصہ ہو گیا ہے پر آج بھی ان کی قوم بالخصوص اور دنیا بھر کے عوام بالعموم ان کو یاد کرتے ہیں ان سب میں بعض قدریں مشترک تھیں مثلاً یہ رہنما عوام دوست تھے نہ کہ خواص دوست انہوں نے اپنے اپنے ملک میں عوامی فلاح و بہبود کی جو پالیسیاں بھی مرتب کیں وہ اس طرز پر کیں کہ ان کے ثمرات عام انسانوں کو پہنچیں نہ کہ مٹھی بھر اشرافیہ کے افراد کو‘ موروثی سیاست پر ان کا اعتقاد نہ تھا ورنہ آج ان کے ملکوں میں ان کا ہی کوئی پوتا پوتی ہی ایوان اقتدار 
کا حصہ ہوتے خوش قسمت ہوتی ہیں وہ قومیں جن کو اس قسم کے لیڈر میسر آ تے ہیں کہ جن میں چند لوگوں کے نام ہم نے اوپر کی سطور میں درج کئے ہیں امام خمینی اگر چاہتے تو اس محل میں رہائش اختیار کرسکتے تھے کہ جہاں سے اس وقت شہنشاہ ایران بھاگ کر ملک سے باہر چلے گئے تھے کہ جب امام خمینی کا انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا تھا‘ اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے ساری زندگی اپنے اسی چھوٹے سے گھر میں ہی گزاری کہ جس میں وہ شروع سے ہی رہائش پذیر تھے ماوزے تنگ نے جب ایک کارخانے کی انسپکشن 
کے دوران دیکھا کہ وہاں پر کام کرنے والے مزدور ننگے پاؤں کام کر رہے ہیں اور ان کو اس کی یہ وجہ بتائی گئی کہ ان کے پاس جوتے خریدنے کے پیسے نہیں ہیں تو انہوں نے یہ قسم کھالی کہ وہ بھی اب اس وقت تک نیا جوتا نہیں خریدیں گے کہ جب تک چین کی ملوں کے مزدور مالی طور پر اس قابل نہیں ہو جاتے کہ اپنے لئے نئے جوتے خرید سکیں چنانچہ جب بھی ان کا جوتا کسی جگہ سے پھٹ جاتا تو ما وزے تنگ کا سٹاف اس پر پیوند لگانے کیلئے اسے موچی کے پاس لے جاتا لیاقت علی خان کی مالی حالت کا یہ عالم تھا کہ جب ان کی رحلت ہوئی تو ان کی اہلیہ کے پاس سر چھپانے کی جگہ نہ تھی چنانچہ حکومت نے ہالینڈ میں ان کو پاکستان کی سفیر تعنیات کر دیا تاکہ ان کے دال ساگ کا بھی بندوبست ہو جائے اور اس کے ساتھ ان کی رہائش کا مسئلہ بھی حل ہو جائے‘ لیاقت علی خان کو جب راولپنڈی میں گولی لگی اور 
ان کو فوراً ہسپتال لے جایا گیا اور ڈاکٹروں نے ان کے سینے میں زخم کو دیکھنے کیلئے ان کی شیروانی اور قمیض اتروائی تو انہوں نے دیکھا کہ قمیض کے نیچے جو بنیان انہوں نے پہن رکھی تھی وہ پرانی تھی وہ جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی تھی اور دھاگے سے سلی ہوئی تھی جب وہ پاکستان کے قیام کے بعد ہندوستان سے آنے والے مہاجرین کو کراچی میں مکانات الاٹ کر رہے تھے تو ان کی اہلیہ بیگم رعنا نے ان سے کہا کہ ایک گھر وہ اپنے لئے بھی الاٹ کر لیں کہ وہ بھی تو ہندوستان میں اپنا گھر بار چھوڑ کر آئے ہوئے ہیں تو انہوں نے جواب میں کہا تھا کہ جب تک ہندوستان سے آ ئے ہوئے ہر مہاجر کو گھر الاٹ نہیں ہو جاتا وہ اپنے لئے کوئی گھر الاٹ نہیں کریں گے‘پاکستان کے ایک سابق صدر سکندر مرزا کو جب ایوب خان نے 1958 ء میں ملک میں مارشل لا لگا کر انہیں انگلستان ملک بدر کیا تو وہاں ان کو دال ساگ کمانے کیلئے ایک درمیانے درجے کے ہوٹل میں بطور اسسٹنٹ منیجر کام کرنا پڑا تھا۔