ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ سال 2022ء کے لئے انسانی حقوق کی صورتحال سے متعلق سالانہ رپورٹ میں ایسے حقائق کا بیان کیا گیا ہے جو ماضی سے زیادہ مختلف نہیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی بہتری سے متعلق ایک اچھے مستقبل کی امید اور اِس سلسلے میں عملی کوششوں کی کامیابی کے امکانات زیادہ روشن دکھائی نہیں دے رہے۔ مذکورہ رپورٹ میں ملک کو درپیش آب و ہوا (موسمیاتی) تبدیلی بحران کے ساتھ خواجہ سراؤں پر بڑھتے ہوئے ظلم و ستم کو اجاگر کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کس طرح ملک کی مخالف سیاسی قوتوں کے مابین کشمکش اور اداروں کے مابین تنازعات نے عام لوگوں کی زندگیوں کو مشکلات میں مبتلا کر رکھا ہے‘ بھلے ہی کچھ ترقی پسند قانون سازی کی گئی ہو۔ رپورٹ میں اِس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ یہ ترقی پسند قانون مرکز اور صوبوں دونوں میں آیا ہے اور اس کا تعلق کم از کم اجرت‘ بچوں کو مزدوری
کے طور پر رکھنے کے حوالے سے سخت سزاؤں اور کام کاج کی جگہ پر ہراسانی جیسے مسائل کو حل کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ دوسری جانب سال دوہزاراٹھارہ میں منظور کئے گئے ٹرانس جینڈر افراد کے تحفظ سے متعلق قانون سازی پر مختلف ذرائع سے کمیونٹی کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مذکورہ رپورٹ ہمیشہ کی طرح مفصل ہے‘ جس میں اِس بات کی واضح یاد دہانی کرائی گئی ہے کہ پاکستان کے تمام شہریوں کو اپنے حقوق سے آگاہی اور اُن کے حصول کے لئے کس حد تک جانا چاہئے۔ سال دوہزاربائیس میں ملک میں ایک سیاسی بحران ابھرکر سامنے آیا‘ جو سال دوہزارتیئس میں بھی جاری ہے اور اِس کے کم ہونے کے آثار نظر نہیں آرہے۔ اس کے علاؤہ ایک سال کے دوران دہشت گردی کی وجہ سے 533 جانیں ضائع ہوئیں اور ملک بھر میں گمشدگیوں کا سلسلہ بھی جاری رہا‘ خاص طور پر بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں کئی ایسے افراد اداروں کے زیرحراست رہے جن کے خلاف مقدمات درج نہیں کئے گئے‘ سال دوہزار بائیس کا سیلاب ملک کو درپیش سب سے اہم چیلنج تھا‘ جس سے نمٹنے اور سیلاب متاثرین کی بحالی و امداد کے لئے خاطرخواہ دلچسپی دیکھنے میں نہیں آئی۔ ایچ آر سی پی رپورٹ ایک آئینہ ہے‘ جس میں پاکستان کو اپنی تصویر دیکھتے ہوئے اُن تمام چیلنجز کو انتہائی سنجیدگی اور ترجیح کے ساتھ لینے کی ضرورت ہے جو عالمی سطح پر ہماری ساکھ کو متاثر کرنے کا باعث بن رہے ہیں۔ سال دوہزاربائیس میں آئے سیلاب سے کم سے کم
تین کروڑ تیس لاکھ افراد براہ راست متاثر ہوئے جبکہ زرعی شعبے کے متاثر ہونے کی وجہ سے روزگار میں کمی ہوئی جس سے اندازہ ہے کہ متاثرین سیلاب کی تعداد پانچ کروڑ سے زیادہ ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ متاثرین سیلاب کو مناسب آبادکاری کے لئے مدد ملنی چاہئے۔ اگر سال بہ سال‘ ایچ آر سی پی کی سالانہ رپورٹوں کا جائزہ لیا جائے تو اِن میں خواتین کی حالت ِزار کے حوالے سے چند ایسے امور کی نشاندہی کی گئی ہے جو تبدیل نہیں ہو رہے۔ سال دوہزاربائیس بھی خواتین کے حقوق کی ادائیگی کے حوالے سے زیادہ مختلف ثابت نہیں ہوا کیونکہ اِس دوران مجموعی طور پر 4 ہزار 226 خواتین پر تشدد کے مقدمات درج ہوئے جبکہ اصل تعداد اِس سے کہیں زیادہ تصور کی جا سکتی ہے کیونکہ خواتین کے خلاف زیادہ تر جرائم رپورٹ نہیں ہوتے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ فیصلہ ساز ان حقیقتوں اور اِن حقیقتوں سے جڑی نزاکتوں کو سمجھیں گے۔