یہ جو ہلکا ہلکا سرُور ہے  

یہ مہینہ مائل بہ اختتام ہے‘جو ماہ گرم ہوتا تھامگر اس بار تو ٹھنڈک نے دلوں کو اس طرح تسخیر کیا ہے کہ کبھی تو پنکھا بند کرنے کیلئے سوئچ بورڈ کی جانب ہاتھ لپکتاہے اور کبھی چھت کے پنکھے کو آن کرنے کیلئے ہاتھ جنبش کرتے ہیں؛مچھروں نے بھی تو اس موسم میں زندگی دوبھر کردی ہے‘جہاں سبزہ ہو وہاں او رجہاں گند گریل ہو وہاں بھی ان کا وجود یقینی ہے‘شہر میں بھی مچھروں کی یلغار ہے مگر زیادہ تر ان گھروں میں کہ جن کے صحن کے اوپر منگ میں سے آسمان نظر آتا ہو‘ وہاں مچھرو ں کی بہتات ہے مگر جب موسم پھر سے پانسہ پلٹتا ہے اورنسبتاً ہوا میں نمی زیادہ ہو تو اس غوں غوں کرنے والی مخلوق کا اتا پتا نہیں ہوتا‘اب رات کے وقت سوئیں کے مچھر مارنے کا فرض نبھائیں‘ پھر موسم بھی ایسا کہ اس میں مچھروں کی وجہ سے بیماریوں کا پھیلاؤ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے اب چونکہ مچھروں کی حملہ آوری ہے سو احتیاط کی ضرورت ہے‘موسم کا جو یہ ہلکا ہلکا سرور ہے اس میں ہر لطف لینے والا نشے میں چُور ہے‘کوئی نزدیک ہو یا دور ہے ہر کوئی موسم کی اداؤں میں مخمور ہے‘کیونکہ موسم جو خوشگوار ہے اور بھرپورہے‘ دھوپ گھنٹہ بھر رہے تو مچھروں نے اپنی کارستانی شروع کردینا ہے مگر قدرت کے عجیب نظارے ہیں کہ اپریل کا آخیر ہے اور موسم کی خوشگواری جاتے جاتے بھی نہیں جا پا رہی‘یہ نہ ہو کہ موسم کی ان شرارتوں میں جولائی میں بھی سردی کا احساس ہو کیونکہ پچھلے سال بھی جون میں موسم ٹھنڈا تھا موسم کی تبدیلیاں جانے کیا رنگ لاتی ہیں مگر اس وقت تو ہمارے لئے کچھ اچھا ہی ہو رہا ہے‘گرمی کے تصور سے تو اب روح کانپنے لگتی ہے اسلئے نہیں کہ گرما میں موسم کی تپش ستائے گی اسلئے کہ بجلی کے بلوں کے زیادہ ہونے کی وباء آئے گی‘ جان کر بل زیادہ بھیجیں گے‘پھر شکایت کرنے جاؤ تو کہیں گے کہ خیر ہے ان مہینوں میں ہمارے ساتھ گزارا کریں ستمبر کے بعد کے بلوں میں یہ اووربلنگ کا حساب چُکتا کر دیں گے‘سو ا س موسم میں جو خوشگواری ہے وہ تو دیوانہ بنائے دیتی ہے‘اگر فارغ ہوں توبس چائے وائے پی لیں‘ گپ شپ لگائیں‘گھومیں پھریں سیر سپاٹا کریں‘بازاروں کے چکر لگائیں کچھ لینا ہو نہ ہو بازاروں کا رش بڑھائیں مگر اتنے بھی فارغ نہ ہوں کہ دوسروں کو بھول جائیں ان کو جن کو بھولنا نہیں چاہئے کیونکہ خود اگر کھاتے پیتے ہیں تو ساتھ کسی نادار کو بھی تو کھلائیں پلائیں‘ فراز نے کیاکہا ہے”اس زندگی میں اتنی فراغت کسے نصیب‘اتنا نہ یاد آ کہ تجھے بھول جائیں ہم“ مگر دوسری جانب جو ش ملیح آبادی کے اشعار یاد آرہے ہیں جو لگے ہاتھوں آپ کی نذر کرتا ہوں ”دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا۔ جب چلی سرد ہوا میں نے تجھے یاد کیا“اس موسم کی سرد ہوا کی وجہ سے دلوں کے زخم تازہ ہوتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں‘آگے کے مہینے تو ہیں گرم مگر کیا عجب کہ اسی طرح موسم کی یخی ہو کیونکہ سردی میں تو چلو کسی نہ کسی غار میں گھس جاتے ہیں مگرگرمیوں میں تو بندہ گھرکے مین گیٹ سے نکل کر باہر گلی میں بنیان میں آن کر بیٹھ جاتا ہے‘پھر خاص اس موقع پرجب بجلی چلی گئی ہو تو بندہ اب گھرکے کس کونے میں جا کر گرمی کو بہلائے اور بھگائے‘گھرکے جھروکوں سے اگر پھولوں کی بُو باس آ رہی ہو اور سر گھما کر دیکھیں تو سڑک کے کنارے لگے درختوں کے پتے سرسراتے ہوں شاخیں ایک دوسرے کے ساتھ خوشی کے عالم میں گلے مل رہی ہوں جیسے گزری عید پریہ اس شہرمیں نہ تھیں کہیں اورمنتقل ہو چکی تھیں پھراب جو ملی ہیں تو سر خوشی کا ایک عالم ہے کہ جس میں یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے شاخوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بغلگیر ہونے پر آمادہ کر رہا ہے۔دو دن پہلے تو ایسی ہوا چلی کہ کمروں کے دروازے اپنی خاص آواز کے ساتھ خود ہی کھلنا شروع ہوئے اورمحسوس ہوا کہ ہوا گھر کے صدر دروازے پر دستک دے رہی ہے مگر پھر گمان گزرا کہ نہیں کوئی ہے جو اس وقت ہم سے رات کے اندھیروں میں اس موسم کی خوشگواری میں روح بن کر اندھیاروں کو شکست سے دوچار کرنے آیا ہے مگر فیض کی نظم ”تنہائی“ یاد آرہی ہے اوروہ بھی گلی کوچے میں ضیاء محی الدین کی آواز میں ابھرتی ایک رومانویت طاری کر رہی ہے ”پھرکوئی آیا دلِ زار نہیں کوئی نہیں۔ راہرو ہوگا کہیں او رچلا جائے گا‘ڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں کا غبار۔ لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ‘سو گئی راستہ تک تک کے ہر اک رہگزار۔اجنبی خاک نے دھندلادیئے قدموں کے سراغ۔