حال ہی میں حکومت نے ادویات کی خوردہ قیمتوں میں بیس فیصد تک اضافے کی منظوری دے دی ہے جبکہ ادویہ ساز اداروں کو چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ جان بچانے والی ادویات جنہیں ’ضروری ادویات‘ قرار دیتے ہیں‘ کی قیمتوں میں زیادہ سے زیادہ ’چودہ فیصد‘ اضافہ کیا جائے۔ وفاقی کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کا یہ فیصلہ ادویات کے درآمد کنندگان اور خام مال درآمد کر کے اُس سے پاکستان میں ادویہ سازی (مینوفیکچرنگ) کرنے والوں کے مطالبے پر کیا گیا ہے جو گزشتہ کئی مہینوں سے نہ صرف ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں کیونکہ روپے کے مقابلے ڈالر کی قیمت مستحکم ہوئی ہے اور چونکہ ادویات کی تیاری میں استعمال ہونے والا خام مال زیادہ تر درآمد کیا جاتا ہے اِس لئے ادویات کی قیمتوں کو پیداواری اخراجات کے مطابق بڑھانے کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔ ذہن نشین رہے کہ ادویہ ساز اداروں کی نمائندہ تنظیم نے حکومت کے ساتھ مذاکرات میں ادویات کی قیمتوں میں 39فیصد اضافے کا مطالبہ کیا تھا تاہم مذاکرات کے بعد طے ہوا ہے کہ جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں زیادہ سے زیادہ چودہ فیصد جبکہ دیگر عمومی ادویات کی قیمتوں میں زیادہ سے زیادہ بیس فیصد اضافہ کیا جائے گا۔ وزارت خزانہ کا مؤقف ہے کہ روپے کی قدر میں اضافے کی وجہ سے ادویات کی قیمتوں کا تین ماہ بعد دوبارہ جائزہ لیا جا سکتا ہے تاہم آئندہ مالی سال میں ادویات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان فارما سیوٹیکل مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن نے اس اضافے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اُن کی توقع سے کہیں کم ہے جبکہ مارچ دوہزارتیئس کے دوران میں افراط زر (مہنگائی) کی شرح ’35فیصد‘ تک پہنچ گئی جس کی وجہ پاکستانی کرنسی کی قدر میں کمی‘ مختلف شعبوں کی دی جانے والی سبسڈی میں واپسی اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے ایک اعشاریہ ایک ارب ڈالر کا بیل آؤٹ پیکج حاصل کرنے کے لئے مختلف ٹیکسوں کے نفاذ کے باعث ادویات کے پیداواری اخراجات سو فیصد سے بھی زائد بڑھ گئے ہیں جبکہ مہنگائی کے تناسب سے ادویات کی قیمتوں میں اضافہ ہونا چاہئے تھا۔ ادویہ سازوں کے مطالبات کا لب لباب (خلاصہ) یہ ہے کہ جس طرح پاکستان میں غذائی افراط زر 47 فیصد سے زیادہ ہو چکا ہے تو اِسی تناسب سے ادویات کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہونا چاہئے۔ دوسرا قابل ذکر مطالبہ ٹیکسوں میں چھوٹ سے متعلق ہے اور حکومت کے لئے دونوں ہی قابل قبول نہیں ہیں۔ فارماسیوٹیکل صنعت اور وزارت ِصحت کے درمیان قیمتوں کے تنازع کے نتیجے میں کئی ایک اہم ادویات کی شدید قلت پیدا ہوئی ہے اور یہ قلت تشویش ناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ معاشی مشکلات کی وجہ سے کئی غیرملکی ادویہ ساز اداروں نے اپنی پیداواری سرگرمیاں معطل کر رکھی ہیں جو الگ سے مسئلہ ہے۔