خبر آئی ہے کہ میئر پشاور حا جی زبیر علی نے پشاور کی مشہور تفریح گاہ وزیر باغ میں پا نی، بجلی اور صفائی کے ساتھ آنے جا نے کے راستوں پر ٹریفک کے نظام کو بھی بہتر بنا نے کے جا مع منصو بے کا اعلا ن کیا ہے پشاور کے شہریوں نے وزیر باغ کی دیکھ بھال اور تزئین وآرائش میں شہری حکومت کی طرف سے سست روی کی شکا یت کی تھی شہر کے میئر نے اس شکا یت کا ازالہ کرنے کے لئے جا مع منصو بے کا اعلا ن کر کے شہریوں کے دل جیت لئے۔شہر کی تفریح گاہیں پرانے اور نئے شہر یوں کے لئے مشترکہ ورثے کی حیثیت رکھتی ہیں شہر کی تفریح گاہوں میں شاہی باغ کے ساتھ ہی وزیر باغ کا ذکر آتا ہے۔ ایک باغ باد شاہ سے منسوب ہے تو دوسرا باغ دربار کے وزیر سے منسوب ہے اور دونوں کی یکساں اہمیت ہے پشاور شہر نے گذشتہ ایک صدی کے اندر بنیادی ڈھا نچے کے ساتھ ثقافتی ورثے اورآبادی کے جا ئز ے میں بھی بے شمار تبدیلیوں کا مشا ہدہ کیا ہے ارد گرد اور نزدیک و دور سے آنے والوں کی کئی بستیاں شہر کے اندر اور شہر کے اطراف میں آباد ہو
چکی ہیں شہر کے نئے مکینوں میں جن لو گوں نے شہر کی تفریح گاہوں کی رونق بڑھائی ان میں چترالی کمیو نٹی کو بھی شمار کیا جا تا ہے لا لہ ایوب، لا لہ رفیق اور طہماس خا ن چترالی کمیو نٹی سے تعلق رکھنے والے کھلا ڑیوں کو فٹ بال، ہا کی اور دیگر کھیلوں میں پشاور کے قدیم باشندوں کے برابر اہمیت دیا کر تے تھے، چترالی کمیو نٹی زیاد ہ تر دستکا ریوں سے وابستہ ہے رات دیر تک مشینوں پر بیٹھ کر ہاتھوں کے ہنر کا مظا ہرہ کر نے کے بعد دن کے وقت سہ پہر تک کام کر کے تفریح کے لئے دو چار گھنٹے نکا ل لیتی ہے اور بحیثیت کمیو نٹی ایک برادری بن کر شاہی باغ اور وزیر باغ کا رخ کرتی ہے ہم نے وزیر باغ کو چترالیوں کی وجہ سے پہچانا اور ایک بار پہچا نا تو یہ ہماری روز مرہ سر گرمی کا حصہ بن گیا۔ جیسے وزیر باغ ہمارا دوسرا گھر ہو۔ وقت گزر نے کے ساتھ نظم و ضبط میں اضا فہ ہوا تو چترالیوں نے وزیر باغ میں چھوٹی عید اور بڑی عید کے موا قع پر فٹ بال ٹورنامنٹ کا اہتمام شروع کیا۔اس کے لئے انتظا می کمیٹیاں بن گئیں، چترال کے مختلف مقا مات اور وہاں کی دور دراز وادیوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے اپنے اپنے علا قے کے نا موں کی منا سبت سے الگ الگ ٹیمیں تشکیل دیں۔یوں ہر ٹورنامنٹ میں 12سے 15ٹیموں کا اندراج ہونے لگا۔چترال سے کھلا ڑیوں کی حو صلہ افزائی کے لئے شہنا ئی اور ڈھول منگوائے گئے الغرض وزیر باغ سال میں دوبار ہفتہ یا 10دنوں کے لئے چھوٹے چترال کا منظر پیش کرنے لگا۔اب عید کا موقع آتا ہے تو وزیر ستان سے لیکر کوہستان
اور اٹک سے لاہور تک حصول علم یا محنت مزدوری کے لئے پھیلے ہوئے چترالی لوا ری کے اُس پار چترال جا نے کے بجا ئے وزیر باغ آکر سکون پا تے ہیں اور اپنی عید وزیر باغ میں جاری رہنے والے ٹورنامنٹ کی رونقوں میں کھوکر گزار دیتے ہیں۔ ٹورنامنٹ کے دنوں میں دور دور سے پشاور آنے والے بعض چترالی پشاور سے پہلے وزیر باغ کا نا م لیتے ہیں کیونکہ ان کا شوق وزیر باغ میں فٹ بال کھیلنے یا اپنی ٹیم کی حو صلہ افزائی کرنے کا ہو تا ہے اور شوق کی کوئی قیمت نہیں ہوتی۔وزیر باغ کے ساتھ میری جو یا دیں وابستہ ہیں وہ نصف صدی پر محیط ہیں۔ہمارا تعلق کھلاڑیوں کی حو صلہ افزائی کرنے والوں سے تھا۔ہم ایسے لو گ تھے جن کی اپنی کوئی ٹیم نہیں ہو تی تھی اس لئے ذہنی تنا ؤ اور دباؤ کے بغیر ہلکے پھلکے انداز میں کھیل سے لطف اندوز ہو تے تھے اور وزیر باغ کی خوب صورتی کو سراہتے تھے۔ جیسا کہ سٹی مئیر نے اعلا ن کیا ہے وزیر باغ میں بنیادی سہولتوں کی فراہمی اور صفا ئی کے ساتھ ٹریفک کو منظم کر نے کا اہتما م ہوا تو وزیر باغ کو چار چاند لگ جا ئینگے۔