پاک افغان دوطرفہ تجارت

افغانستان چونکہ ایک لینڈ لاک ملک ہے اور بیرونی دنیا سے تجارت کے لئے وہ اپنے دو پڑوسی ممالک پاکستان اور ایران  پر انحصار کرتا ہے اس لئے اسے اپنی تمام برآمدات اور خاص کر درآمدات کے لئے پاکستان کی بندگاہوں پر انحصارکرنا پڑتا ہے۔افغانستان کو اپنی اسی مجبوری کی وجہ سے پاکستان کے ساتھ پہلے 1965اور بعد ازاں 2010میں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کرنا پڑا تھا جن کے تحت پاکستان افغانستان کو زمینی راستوں سے نہ صرف اپنی بندرگاہوں تک رسائی دینے کاپابند ہے بلکہ ان معاہدوں کی رو سے اسے بین الاقوامی ضمانتوں کے تحت کئی مراعات بھی حاصل ہیں۔یاد رہے کہ ان معاہدوں کے تحت افغانستان پاکستان کے ساتھ زیادہ تر تجارت تو طورخم اور چمن کے راستوں سے کرتاہے لیکن ان کراسنگ پوائنٹس کے علاوہ جنوبی وزیرستان میں وانا انگور اڈہ،کرم میں خرلاچی اور شمالی وزیرستان میں غلام خان کے کراسنگ پوائنٹس بھی پاک افغان دوطرفہ تجارتی روٹس کے طور پر استعمال ہوتے رہے ہیں۔پاک افغان تجارت پر بات کرتے ہوئے ہمیں جہاں افغانستان میں گزشتہ چالیس سالوں سے جاری بدامنی کو نہیں بھولنا چاہیے وہاں افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے حوالے سے اشیاء خوردونوش کی پاکستان سے افغانستان اور بعض امپورٹڈ اشیاء کی ٹرانزٹ ٹریڈ کی آڑ میں افغانستان سے پاکستان کوسمگلنگ دونوں ممالک کے درمیان وجہ تنازعہ بنتی رہی ہے۔اسی طرح پاکستان افغان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ کے بدلے افغانستان سے وسطی ایشیائی ریاستوں تک زمینی رسائی کامطالبہ کرتا رہا ہے جس کے جواب میں افغانستان ایسی کوئی رعایت دینے کی بجائے پاکستان سے واہگہ بارڈر کے راستے بھارت کے ساتھ تجارتی روابط کااپنا مطالبہ رکھتا رہا ہے جس کی وجہ سے پاکستان باوجود کوشش اور خواہش کے وسطی ایشیائی ریاستوں ازبکستان، تاجکستان، ترکمانستان‘ کرغیزستان اور قازقستان تک زمینی تجارت کی سہولیات کے حصول سے محروم چلا آرہاہے۔ 2010 کا ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان ایک دوسرے کی بندرگاہوں‘ شاہراہوں اور ریل روڈز کا استعمال کرتے ہوئے سامان کی منتقلی کی اجازت دیتا ہے۔اس معاہدے کی ایک شق کے مطابق کے مطابق افغانستان واہگہ بارڈر کے ذریعے بھارت کوتو اپناسامان بھیج سکتا ہے لیکن بھارت کو اسی راستے سے سامان واپس افغانستان بھیجنے کی اجازت نہیں ہے۔ 2015 میں تاجکستان کو ابتدائی طور پراس تجارتی معاہدے میں شامل کیا گیا تھا لیکن بعد میں افغانستان اس سے دستبردار ہو گیاتھا کیونکہ وہ تاجکستان یا اس معاملے میں کسی اور کو بھی حصہ لینے کی اجازت دینے سے پہلے بھارت کو شامل کروانا چاہتا تھا۔یہ بات لائق توجہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تمام انٹری پوائنٹس بالخصوص طورخم کے راستے ہونے والی دوطرفہ تجارت کے متعلق تاجروں اور کنٹینرز مالکان کو جہاں کسٹم کلیئرنس اور دیگر مسائل کی شکایات رہی ہیں وہاں وہ یہ الزام بھی لگاتے رہے ہیں کہ پشاور سے لیکر طورخم تک قائم متعدد چیک پوسٹوں پر ڈرائیوروں کو تنگ کیا جاتاہے جس کی وجہ سے نہ صرف انہیں کروڑوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے بلکہ ڈرائیور زبھی اس صورتحال میں بددلی کے شکار ہوتے ہیں حتیٰ کہ بعض اوقات ڈرائیوروں کی جانب سے نوبت ہڑتال اور توتکارتک بھی پہنچ جاتی ہے۔آل طورخم ٹرانسپورٹ یونین کے عہدیداران کا اس حوالے سے کہناہے کہ تختہ بیگ سے طورخم تک ہر چیک پوسٹ پر ڈرائیوروں کو روک کر تنگ کیا جاتا ہے، دوسری طرف سرحد پارکرنے سے پہلے سکریننگ کا آلہ بھی چھوٹا یعنی موٹرکاروں والا ہے جس سے کام سست روی کا شکار رہتا ہے۔تاجروں استدلال ہے کہ ہمارا مال یورپ تو لیتا نہیں، اگر افغانستان کے ساتھ بھی ایکسپورٹ نہیں کریں گے تو ہم کہاں جائیں گے۔آل طورخم ٹرانسپورٹ یونین کے صدر نے کہا کہ جب تک ان مسائل کو حل نہیں کیا جاتا طورخم بارڈر کو 24 گھنٹے کھلا رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔