اس دن میں ایک علاقے میں سے ہو کر گزرا کہ یہاں سے شارٹ کٹ میں اپنی منزل تک جلد پہنچ جاؤں گا۔ کیونکہ باہر مین روڈ پر بہت رش تھا۔اس شہری گنجان آباد ایریا میں ایک پلازہ بن رہا تھا۔وہاں کارنر کی ایک دکان خالی پڑی تھی۔مگر وہ خالی کہاں تھی اس میں گلی کے آس پاس کے لوگوں نے اپنے اپنے گھر کا کوڑا گرا کر اس دکان کو بھرا ہوا تھا جیسے یہاں اس مارکیٹ میں کوڑا فروخت ہوتا ہے۔صفائی ستھرائی اچھی چیز ہے۔مگر یہ کہاں کی صفائی ہے کہ اپنے گھر کو صاف کر کے گھر کا گند گلی میں پھینک دیا جائے یا کونے والی اس دکان میں گرا دیں۔بلکہ بعض لوگ چھپ چھپا کر دوسرے کے گھر کے مرکزی دروازے پر گند کو پھینک کر آ جاتے ہیں۔عالمی نمبر ون کون ہے اس دوڑ میں ہمارا یہ شہر ِ بھی شامل ہے۔بلکہ ہمارے تو تین شہر لاہور کراچی اور پشاور گندگی کے معاملے میں خود کفیل دس شہروں کی فہرست میں ہیں۔ مگر اوپری نمبرو ں میں نہیں ہیں۔لیکن اوپر کے دس شہروں میں ان کا نام ضرور شامل ہے۔آلودگی کی کون سی قسم ہوگی اور ان شہروں میں دن کے وقت سڑکوں پر اپنا خوفناک رقص پیش نہ کرتی ہو۔ ہم نے یونہی گند گریل جمع کر کے گھر کی کھڑکی کھولنا ہے اور گند کا شاپر نیچے بڑی نالی میں پھینک دینا ہے۔عملہ صفائی جتنا بھی الرٹ ہو جائے ریڈ الرٹ ہو مگر ہم نے خود اپنے گلی کوچوں کو گند سے آلودہ کرنا ہے۔لہٰذا ان کی یہ کوشش کہ وہ شہر کو صاف رکھیں ناکام ہی ہوگی۔اس کا وجہ صاف ہے اور وہ یہ کہ ہم شہری خود نہیں چاہتے کہ یہا ں صفائی کا کوئی مؤثر نظام ہو۔چھوٹی چھوٹی نالیوں میں بڑے بڑے گند کے شاپر پڑے ہوتے ہیں۔ پھر جب نالی یا نالے کا پانی راہ نہیں پاتا تو چڑھ جاتا ہے او راس کا پانی اُبل کر اترائی میں واقع گلیوں میں نیچے جاتا ہوا جہاں سے گلی شروع ہوتی ہے وہاں تک راہگیروں کے کپڑوں کو گندا کرتا جاتا ہے۔صفائی عملہ جتنی سر توڑ کوشش کر لے اس نے اس شہر میں ناکام ہی ہونا ہے۔کیونکہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔جب تک عملہ کے ساتھ عوام خود تعاون نہ کریں اور عملہ کو صفائی کرنے کا کم سے کم موقع دیں یہ کشتی پار اُترنے والی نہیں۔کیونکہ ہم بنیادی طور گند ڈالتے ہیں گند صاف نہیں کرتے۔شہر جوں جوں ترقی کرتا جا رہا ہے۔ اتنا ہی شہرکے اندرون سے کوڑا گرانے کے مقامات بھی ختم ہو رہے ہیں۔ اب وہاں پلازے تعمیر ہوں گے اور دکانیں تشکیل پائیں گی پلاٹ بن کر گھروں میں تبدیل ہوں گے یا کوڑے کے ڈھیر جیسے تھے ویسے رہیں گے۔ یہ کوئی سرکاری کوڑے کے ڈھیر تو نہیں ہیں کہ جس اراضی پر کوئی اپنا مکان کھڑا نہ کرسکے۔جہاں شہریوں کا بس چلا وہاں گند گرا کر غائب ہو جاتے ہیں۔کسی بڑی بلڈنگ کا پچھواڑہ ہے یا کسی چالیس فلیٹس کی بڑی بلڈنگ کی عقبی دیوار ہے۔بس اگر وہاں کوئی پوچھنے والا نہیں تو وہ کونہ کوڑے کا ڈھیر بن جائے گا اور ایسا ویسا۔اتنا کہ وہاں خوب جی بھر کے کوڑا گرایا جا سکتا ہے۔اب گنجان آباد شہری علاقوں میں جہاں رہائشی مکانات زیادہ ہیں اور دکانیں ہیں وہاں کوڑے کے ڈھیر کے لئے جگہ کہاں بچتی ہے۔ پھر کوڑے کا بڑا ڈرم اگر وہاں رکھا جائے تو کہاں رکھا جائے۔کیونکہ ہر ایک کو اعتراض ہے کہ ہماری دکان کے آگے نہ رکھیں ہمارے مکان کے آگے سے ہٹائیں۔ مسئلہ یہ بھی تو ہے کہ نادان شہری خالی ڈرم کو چھوڑ کر کوڑے کا تھیلا ڈرم کے باہر زمین پر گرا دیں گے۔۔اس کے بعد ہر کوئی آئے گا اور ڈرم میں جگہ نہ ہونے کے باعث گند کا شاپر زمین پر گرا کر چلنا بنے گا۔شہریوں سے اتنا نہیں ہوتا کہ تھوڑا دور جا کر گند کا تھیلا گرا کر آ جائیں۔پھر اگر گند زیادہ ہو جائے تو یہ ایک اور کارنامہ سرانجام دیتے ہیں۔وہ اس کوڑے کو ماچس کی پوری ڈبیا خالی کر کے تیلیاں جلا کے آگ لگاتے جاتے ہیں۔ جس کا دھواں اسی گلی میں رہنے والے گھروں میں بلا اجازت داخل ہوتا ہے کھڑکیوں او ردروازوں کی درزوں سے ہو کر گھر والوں کے دماغ اور پھیپھڑوں تک پہنچتا ہے۔جس سے بندہ دمہ کے مرض کا شکار ہو سکتا ہے۔ہم چاہتے ہیں ہمارے ہاتھوں کے ڈالے ہوئے گند آکر دوسرے لوگ اٹھائیں۔پھر ہمارا کام کیا باقی رہ جائے۔ دنیا بھر میں جو ٹاپ ٹین کے گندے اورآلودہ ترین شہروں کی فہرستیں تیار ہوتی رہتی ہیں ان میں ہمارے اس پھولوں کے شہر کا نام بھی موجو دہے۔