سرمایہ دار ممالک کا غیر ذمہ دارانہ رویہ

 وطن عزیز موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بارشوں کی زد میں اور اس بات کی بھی پیشگوئی کی گئی ہے کہ امسال گرمی کی حدت سے گلیشیرز کے پگھلنے سے وطن عزیز شدید سیلابوں کی زد میں بھی آئے گا، پاکستان ابھی  تک ماضی قریب میں  بارشوں اور سیلابوں سے ہو نے والی تباہ کاریوں سے مکمل طور پر بحال نہیں ہو سکا اور اگر اب اسے مزید سیلابوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ جن سے ملکی معیشت کا جو مزید نقصان ہوگا اس  کے تصور سے ہی محب وطن لرز اٹھتا ہے۔ کاربن کے حد درجہ اخراج سے موسیماتی تبدیلیوں نے دنیا میں بشمول پاکستان جو تباہی مچائی ہے اس کاپاکستان ایک فیصد بھی ذمہ دار نہیں ہے، کیا اقوام متحدہ کا یہ فرض نہیں بنتا  کہ وہ ان ممالک پر پریشر ڈالے کہ جو موسیماتی تبدیلی سے پاکستان اور دیگر ممالک میں تباہی مچانے کے ذمہ وار ہیں کہ وہ اس سے متاثرہ ممالک کی بھرپور مالی امداد کریں کیونکہ تن تنہا یہ پاکستان کیلئے ممکن نہ ہو گا کہ وہ اس آفت کا مقابلہ کر سکے۔آئی ایم ایف نے پاکستان کو کہا ہے کہ وہ ملک کے20   لاکھ  ان سرمایہ داروں کو بھی ٹیکس نیٹ  میں لائے کہ جن کی سالانہ آمدنی ایک کروڑ روپے یااس سے زیادہ ہے  اور وہ اب تک حصہ بقدر جثہ کے حساب سے حکومت کو ٹیکس ادا نہیں کر رہے۔ چنانچہ ایف بی آر ان تاجروں اور دیگر سروسز فراہم کرنے والوں پر سپیشل ٹیکس لگانے کی سکیم کی تیاری میں مصروف ہے جو نئے سالانہ بجٹ میں  لاگو کی جائے گی۔سچ تو یہ ہے کہ یہ کام توہمارے ارباب بست و کشاد کو ازخود بہت پہلے کردینا چاہئے تھا۔ ہم من حیث القوم اگر حصہ بقدر جثہ کے حساب سے ریاست کو اپنی صحیح آمدنی کے حساب سے ٹیکس نہ دیں گے تو اس ملک کی معیشت کیسے سدھرے گی کیونکہ پیسے درختوں پر تھوڑی اُگتے ہیں، حکومتیں ملک کے مالدار طبقوں سے وصول کئے گئے ٹیکسوں پر چلا کرتی ہیں جبکہ دوسری طرف یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ  ہمارے ہاں منصفانہ ٹیکسیشن سسٹم نافذ نہیں کیا جاسکا ہے اور اس کی بڑی وجہ ماضی میں حکمرانوں کی عدم دلچسپی ہے۔  اس بات  میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس ملک میں کئی ایسے طبقات ہیں کہ جن کی سالانہ آمدنی لامحدود ہے پر وہ جب اپنی انکم کے گوشوارے جمع کراتے ہیں تو  اپنی آمدنی کو کم ڈکلیئر کرتے ہیں اور اس طرح اپنی جان انکم ٹیکس سے بچا لیتے ہیں، صرف سرکاری ملازم ایسا نہیں کر سکتے کہ ان کی تنخواہ کا سرکار کو پتہ ہوتا ہے،اسلئے جب تک ہماری معیشت کا ہر پہلو دستاویزی یعنی documented  نہ ہوگا عوام پر حصہ بقدر جثہ والا فارمولا لاگو نہیں کیا جا سکے گا اور اس ملک کی ایک بڑی آبادی کو ٹیکس نیٹ کے نیچے نہیں لایا جا سکے گا۔ عوام منتظر ہیں کہ ارباب اقتدار کب غیر ملکی پر تعیش اشیائے صرف کی درآمدات پر مکمل پابندی لگا ئیں گے۔کیونکہ ہماری معیشت کا پہیہ اس وقت تک بھر پور انداز میں چل نہیں پائے گا جب تک درآمدات کے بل کو کم سے کم نہ کیا جائے اور یہ بل تب ہی کم ہوگا جب ایسی اشیاء کی درآمد روک دی جائے جو بنیادی ضروریات میں شامل نہیں ہمیں خود بھی اپنی عادتوں پر نظر ڈالنا ہوگی کہ اسراف اور بے جا خرچ سے کس طرح ہم اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں مجموعی طور پر اس کے ملکی معیشت پر مثبت اثرات سامنے آئینگے۔