سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے مہنگائی (افراط زر) پر قابو پانے کے لئے پالیسی ریٹ کو ’اکیس فیصد‘ جیسی بلند ترین سطح پر لانے کو قریب ایک ماہ ہو چکا ہے لیکن اِس کے باوجود بھی افراط زر میں خاطرخواہ کمی نہیں آئی اور خود سٹیٹ بینک (مرکزی مالیاتی ادارے) کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں مہنگائی تاریخ کی ’ریکارڈ بلند ترین سطح‘ پر پہنچ چکی ہے اور اِس سے بھی زیادہ تشویشناک حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی میں اضافے کا سلسلہ (تسلسل) جاری ہے۔ اپریل 2023ء میں ’سال بہ سال‘ سی پی آئی افراط زر کی شرح 36.4 فیصد اور اِس سے اِس سے قبل ماہ میں 35.4 فیصد تھی۔ طلب اور رسد کی صورتحال بہتر بنائے بغیر اورخود ساختہ مہنگائی و ذخیرہ اندوزی جیسے منفی محرکات کی اصلاح کئے بغیر غذائی افراط زر پر قابو پانا ممکن نہیں۔ مہنگائی کا یہ پہلو بھی تشویشناک ہے کہ ملک کے شہری اور دیہی علاقوں میں مہنگائی کی شرح الگ الگ ہے یعنی شہری علاقوں میں جہاں حکومتی اداروں کی موجودگی ہے وہاں مہنگائی 45.11 فیصد جبکہ دیہی علاقوں میں 51.37 فیصد ہے۔ دیہی علاقوں میں اصولاً شہری علاقوں کی نسبت مہنگائی کم ہونی چاہئے کیونکہ وہاں کے رہنے والوں کی قوت ِخرید کم ہوتی ہے۔ اِن پیش رفتوں کا پس منظر پاکستان کی بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ تعطل کا شکار ’بیل آؤٹ پروگرام‘ کی بحالی میں تاخیر ہے۔ اس صورت حال کے ساتھ ’ایک فیصد‘ سے بھی کم شرح نمو کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ معاشی مشکلات سے چھٹکارا پانے کیلئے مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔ یقینا فیصلہ ساز پاکستان کو درپیش بدحالی پر فکرمند ہیں اور اِسے ختم کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔رواں مالی سال کے ختم ہونے میں دو ماہ سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔ اسلام آباد میں نئے مالی سال کے بجٹ پر کام جاری ہے۔ یہ بات وثوق سے نہیں کہی جا سکتی کہ موجودہ معاشی مشکلات کا دور کب ختم ہوگا لیکن یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے اگر معاشی مشکلات اور مہنگائی کا موجودہ دور جلد ختم نہ ہوا تو اِس سے عام آدمی کے مسائل میں اضافہ ہوگا‘ جس کا عام آدمی مزید متحمل نہیں ہو سکتا۔ بہتر ہے کہ ’فنڈ‘ یا کسی بھی دوسرے ذریعے قرض ملنے کا انتظار نہ کیا جائے اور قومی وسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے معیشت کی ازسر نو ترتیب کے لئے ’پلان بی‘ تیار کیا جائے۔ سمجھنا ہوگا کہ وقت کم ہے کیونکہ معیشت پر دباؤ سے عام آدمی پر مہنگائی کے بوجھ سے معاشرے پر سنگین نوعیت کے منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں!یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ حکومت اپنی بھرپور کوشش کر رہی ہے کہ نہ صرف معیشت کی بحالی کو جلد از جلد ممکن بنایا جا سکے بلکہ ساتھ ہی عام شہری کو ریلیف دینے کے لئے بھی کوئی راستہ نکالے تاہم موجودہ مشکلات کو دیکھتے ہوئے یہ مشکل ہدف ہے جسے حاصل کرنے کے لئے یقینا حکومت کو مشکل فیصلے کرنا ہونگے‘ تاکہ عام آدمی کی مشکلات کو کم کیا جا سکے۔