مجھے پھول اتنے پسند ہیں اتنے پسند ہیں کہ میں بتلا نہیں سکتا۔میں اسی وجہ سے ان کو شاخوں پر سے توڑتا ہی نہیں۔ اپنی شاخ پر کھلا ہوا پھول کتنا اچھا لگتا ہے۔کم از کم مجھ سے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ پھول کو شاخ سے مت جدا کرو۔یہ توباغ میں سفید چارٹ پر لکھ دیتے ہیں کہ پھول توڑنا منع ہے۔کیوں خود کو احساس نہیں کہ پھولوں کو توڑنا اچھا نہیں۔یہ تو اس ادارے اس چمن کی زینت میں اضافہ کر تے ہیں۔بلکہ مالی تو صاحب کی خوشنودی کے لئے ان کے کہنے کے مطابق صبح سویرے ان کے آفس آنے سے قبل ہی ان کی میز پر نئے تازہ او رصبح دم شاخوں پر سے مختلف رنگوں کے پھولوں کا گلدستہ بنا کر ان کی میز پر سجا دیتا ہے پھرانعام بھی پاتا ہے پھر شاباشی بھی ملتی ہے۔جو حقیقت میں پھولوں کے عاشق ہوتے ہیں وہ شاخوں پر سے پھولوں کو جدا نہیں کرتے۔اگر اس دوران میں کہ کوئی پیارا سا پھول توڑیں تو کانٹوں کی وجہ سے ان کاہاتھ زخمی ہو جائے ایسا بھی ہوتا ہے۔ آپ خود سوچیں پھولوں کے ساتھ کانٹے بھی ہوتے ہیں۔ پھول ہیں تو یہ کانٹے ان کی حفاظت او ران کو توڑنے سے منع کرنے کی علامت ہیں۔ مگر کون سمجھے کانٹے کیا پیغام دیتے ہیں۔جو لوگ پھولوں کو پسند کرتے ہیں وہ پھول نہیں توڑتے۔وقتی طور کا شوق ہوتا ہے۔ پھول توڑا اور اس کی خوشبو سونگھ کر گرا دیا یا اپنے کالر میں لگا دیا پھر بالوں میں بھی سجا دیا۔میں تو سمجھتا ہوں کہ ایک پھول توڑنے کا بھونچال ہر دل کو محسوس نہیں ہوتا۔مجھے پھولوں کا مرجھانا پسند نہیں ہے۔مگر یہ لوگ پھولوں سے اپنا مطلب پورا کر کے ان کو زمین پر گرا دیتے ہیں۔میں پھولوں کی خوشبو ضرور محسوس کرتا ہوں او ران کے قریب جا کر ان کو دیدہ زیبی کی نظر سے دیکھتا بھی ہوں مگر ان کو ٹچ نہیں کرتا۔کیونکہ احساس ہوتا ہے کہ یہ نرم و ملائم پتیوں والا پھول میرے میل سے بھرے ہاتھوں کی ایک کنکری سے یہ نازک کانچ کا پیکر چھناکے سے ٹوٹ کر کرچی کرچی ہو جائے گا۔ اس کی پتیاں بکھر گئیں تو ان اوراقِ پریشاں کوکون سمیٹ پائے گا۔ پھول او رٹہنی کا جسم و جاں کا رشتہ ہے۔پھول کو ٹہنی سے الگ کرنا سمجھ رکھنے والے بندے کا کام نہیں ہے۔باراتی ہیں تو وہ پھول استعمال کرتے ہیں۔ پھولوں ہم لوگوں کی خدمت ہر موقع پر کرتے ہیں خواہ وہ غم کا موقع ہی کیوں نہ ہو۔ ہر موقع پر پھولوں کی خوشبو ماحول کو کشادہ اور پُرکشش بنا دیتی ہے۔ہر جگہ یہ ہماری قدر کرتے ہیں۔مگر ہم ہر جگہ ان کی بے قدری کے مرتکب ہوتے ہیں۔کمال ہے کہ پھول بے وفا نہیں ہوتے۔جس حد تک ہو آدمی کا ساتھ دیتے ہیں۔ان کو مسل بھی دو تو یہ خوشبو دیتے ہیں۔پھول ہر رنگ میں ہو مگر یہ سب نسیمِ بہار کے پالے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ بھی لاڈ پیار سے۔بادِ صبا ان کو جھولا دیتی ہے۔ان کو گدگداتی ہے یہ ہنستے ہیں او راسی لاڈ پیارمیں بڑے ہوتے ہیں۔ مگر ہم بادبہاری کی یہ محنت کتنی جلدپاؤں تلے روند دیتے ہیں۔ان کو مٹی مٹی کردیتے ہیں۔ وہ کہ جو ہمارے سر پر سجتے ہیں تو ہماری شخصیت کو دوسرے کی نظر میں پُر بہار بنا دیتے ہیں۔مگر ہمیں کب ان کی پرواہے۔پھول اپنی شاخ ہی پر کھلا ہوا اچھا لگتا ہے۔کیا ضرورت ہے کہ اپنی پانچ دس منٹ کی خوشی کی خاطر ان کو توڑ کر شاخ سے علیحدہ کر دیں او رپھر زمین پر گرا کر ان کے اوپر پاؤں رکھ کر گزر جائیں۔