ایران سے خسرے کا خاتمہ 

عالمی ادارہ صحت نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ایران میں خسرہ اور روبیلا کا خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ایران نے یہ حیران کن کامیابی ایسی حالت میں حاصل کی ہے جب بہت سے یورپی ممالک نے ابھی تک عالمی ادارہ صحت سے خسرہ اور روبیلا کے خاتمے کے حوالے سے منظوری حاصل نہیں کی ہے لیکن اسلامی جمہوریہ ایران نے ان دونوں بیماریوں کے خاتمے میں کامیابی حاصل کرکے پاکستان جیسے پروسی ممالک تو ایک طرف بعض یورپی ممالک کو بھی پیچھے چھوڑ دیاہے۔واضح رہے کہ خسرہ ممکنہ طور پر ایک جان لیوا بیماری ہے۔ اس کی شدید پیچیدگیوں میں نمونیا، اسہال، اندھا پن، اور انسیفلائٹس (دماغ کی سوجن) وغیرہ جیسے خطرناک امراض بھی شامل ہیں۔روبیلا کے شکار افراد کی علامات میں کم درجے کا بخار، گلے میں خراش اور ایک خارش جو چہرے پر شروع ہوتی ہے اور باقی جسم تک پھیل جاتی ہے قابل ذکر ہیں۔ایرانی ذرائع کے مطابق دسمبر 2022 میں یونیسیف نے ایران کو خسرہ کی ویکسین کی چھ لاکھ خوراکیں عطیہ کی تھیں لیکن اس سے قبل افغانستان سے ایران آنے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں اچانک اضافے اور کوروناوباء کے دوران افغانی اور ایرانی بچوں کو معمول کے ضروری ٹیکوں کی فراہمی میں تاخیر، خسرہ کے بڑھتے ہوئے کیسز کی ممکنہ وجوہات تھیں۔ ان خطرات کوبھانپتے ہوئے وزارت صحت نے خسرہ سے بچاؤ کی ویکسینیشن مہم شروع کی جس کے تحت ملک میں 9 ماہ سے 30 سال کی عمر کے تمام پناہ گزینوں کو ٹیکے لگائے گئے اور عوام سے مطالبہ کیا گیاکہ وہ بچوں کی معمول کی ویکسینیشن کو قومی شیڈول کے مطابق جلد از جلد یقینی بنائیں۔حکومت کے ان بروقت اقدامات ہی کا نتیجہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت نے ایران کے حق میں خسرے کے خاتمے کا سرٹیفیکیٹ جاری کیاہے۔یہ بات قابل غور ہے کہ ایران میں خسرہ سے بچاؤ کے قطرے پلانے کا پروگرام 1984 میں شروع ہوا تھاجب 34 فیصد آبادی کو پہلے سال اور 90 سے 95 فیصد آبادی کو 6 سال
 کے بعد ٹیکہ لگایا گیا۔ 2003 میں بھی ملک میں خسرہ کے خاتمے کے لیے قومی پروگرام کے ذریعے 33 ملین افراد کو ٹیکے لگائے گئے تھے۔یہاں یہ بات بھی اہمیت کی حامل ہے کہ وسیع نیٹ ورکنگ اور رسائی کے ساتھ ساتھ صحت کے شعبے اور طبی تعلیم کے اداروں کے درمیان کامیاب رابطے کی وجہ سے ایران کا پرائمری ہیلتھ کیئر (PHC) نظام صحت کے شعبے میں ایک رول ماڈل کے طور پر جانا جاتا ہے۔PHC کے ڈھانچے کے ایک حصے کے طور پرشہری اور دیہی علاقوں میں جامع صحت کی دیکھ بھال کے مراکز، صحت کی پوسٹس اور ہیلتھ ہاؤسز قائم کیے گئے ہیں جو لوگوں کو مختلف قسم کی کلیدی صحت کی خدمات پیش کرتے ہیں یعنی قانونی موشگافیوں سے قطع نظر پناہ گزینوں سمیت تمام بچوں کے لیے معمول کی ویکسینیشن ایران کے پرائمری ہیلتھ کیئر نظام کاایک بنیادی ستون ہے۔ خسرہ ایک انتہائی متعدی اورسنگین بیماری ہے جو وائرس کی وجہ سے ہوتی ہے۔ 1963 میں خسرہ کی ویکسین کے متعارف ہونے اور بڑے پیمانے پر ویکسینیشن سے پہلے بڑی وبائی بیماریاں تقریباً ہر دوتین سال بعد آتی تھیں اور خسرہ ہر سال ایک اندازے کے مطابق 2.6 ملین اموات کا باعث بنتا تھا۔یہ بات قابل تشویش ہے کہ محفوظ اور موثر ویکسین کی دستیابی کے باوجود پچھلے چند سالوں کے دوران ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ لوگ خسرہ سے ہلاک ہوئے جن میں سے زیادہ تر 5 سال سے کم عمر کے بچے تھے۔ ماہرین کاکہناہے کہ ٹیکے نہ لگوائے گئے چھوٹے بچوں کو خسرہ اور اس کی
 پیچیدگیوں بشمول موت کا سب سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ غیر ویکسین شدہ حاملہ خواتین بھی خطرے میں شمارکی جاتی ہیں۔ کوئی بھی غیر مدافعتی شخص جسے ویکسین نہ لگائی گئی ہو انفیکشن کا شکار ہو سکتا ہے۔خسرہ اب بھی بہت سے ترقی پذیر ممالک خاص طور پر افریقہ اور ایشیا کے کچھ حصوں میں عام ہے – خسرہ سے ہونے والی اموات کی بھاری اکثریت (95% سے  زیادہ) ان ممالک میں ہوتی ہے جہاں فی کس آمدنی کم ہے اور صحت کا ڈھانچہ کمزور ہے۔خسرہ کی وباء خاص طور پر ان ممالک میں مہلک ہو سکتی ہے جو قدرتی آفت یا تنازعات کا سامنا کر رہے ہیں۔ صحت کے بنیادی ڈھانچے اور صحت کی خدمات کو پہنچنے والے نقصان سے معمول کے حفاظتی ٹیکوں میں خلل پڑتا ہے اور رہائشی کیمپوں میں زیادہ بھیڑ انفیکشن کے خطرے کو بہت زیادہ بڑھا دیتی ہے۔ ان ممالک میں جہاں خسرہ کو بڑی حد تک ختم کر دیا گیا ہے دوسرے ممالک سے درآمد شدہ کیسز انفیکشن کا ایک اہم ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔خسرہ کے علاج سے متعلق یہ بات لائق توجہ ہے اس کے وائرس کے لیے کوئی مخصوص اینٹی وائرل علاج موجود نہیں ہے۔خسرہ کی ویکسین تقریباً 60 سالوں سے استعمال ہو رہی ہے۔ یہ محفوظ، موثر اور سستا ہے۔ ایک بچے کو خسرہ کے خلاف حفاظتی ٹیکے لگانے کے لئے تقریباً ایک امریکی ڈالر خرچ ہوتا ہے جو ایک قیمتی انسانی جان بچانے کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے۔ڈبلیو ایچ اوکی خسرہ کی نگرانی کے اعداد و شمار کے مطابق عالمی سطح پر خسرہ کے کیسز میں کافی کمی آئی ہے جس کے نتیجے میں اموات کی شرح میں بھی خاطر خواہ کمی ہوئی ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان ان پانچ ممالک میں شامل ہے جہاں اب بھی خسرہ کا موذی مرض نہ صرف وجود رکھتاہے بلکہ کسی بھی وقت وبائی شکال اختیارکرکے بڑے پیمانے پرجانی نقصان کا باعث بھی بن سکتاہے۔ لہٰذا خسرہ کی وباء کی روک تھام کے لیے ہر سطح پر پولیو کے خاتمے کے پروگرام کے ساتھ ساتھ خسرہ کی قومی ویکسینیشن مہمات کا چلایاجانابھی ضروری ہے۔