خارجہ پالیسی کیسی ہونی چاہئے؟

 جس طرح وقت بدلتا ہے‘انسان بدلتا ہے‘بالکل اسی طرح ملکوں کے حالات بھی وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی جامد نہیں رہتی‘عقلمند ارباب اقتدار وہ ہوتے ہیں جو بدلتے ہوئے وقت کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ھوئے اپنے ملک کی خارجہ پالیسی مرتب کرتے ہیں وہ اپنے ملک کی خارجہ پالیسی وضع کرتے وقت کئی  پہلوؤں  کا خیال رکھتے ہیں ان کے پیش نظر کئی حقائق ہوتے ہیں جہاں تک وطن عزیز کا تعلق ہے ہم آج کل ایک ایسی  دنیا میں رہ رہے ہیں کہ جس میں  ایک طرف امریکہ کی قیادت میں ایک مضبوط سیاسی اور عسکری گروپ ہے تو دوسری طرف چین اور روس کے زیر اثر دوسرا اور  یہ دونوں اپنی اپنی جگہ فوجی لحاظ سے مضبوط قوتیں ہیں کئی عالمی سطح کے قضیؤں میں ان کے درمیان اختلاف رائے ہے اور ان دونوں گروہوں کی کوشش  یہ ہے کہ کسی طرح ایک دوسرے کو نیچا دکھایا جائے‘ ہمارے اکثر حکمرانوں نے ایک ایسی خارجہ پالیسی پر عمل درآمد کیا کہ جو حد درجہ امریکہ نواز تھی‘اس کی وجہ سے ہم سے ہمارا  ایک ہمسایہ ملک  جواس وقت سوویت یونین  کہلاتاتھا کافی نالاں رہا امریکہ نوازی میں ہم اس قدر آ گے چلے گئے کہ ہم نے اس کی وجہ سے سوویت یونین سے مفت میں دشمنی مول لے لی‘ خدا خدا کر کے کچھ عرصے سے روس کا  پاکستان میں اعتماد بحال ہواہے اور اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ماضی کی تلخیاں بھلا کر  روس کے ساتھ  میل ملاپ کو بڑھایا جائے اور امریکہ کو خوش کرنے کے لئے کوئی ایساقدم نہ اٹھایا جائے کہ جس سے پاک روس تعلقات پر منفی اثر پڑتا ہو‘ یہ شکر ہے کہ 1947 ء سے لے کر تا دم
 تحریر اپنے دوسرے عظیم ہمسایہ ملک چین کے ساتھ ہمارے تعلقات ہمیشہ خوشگوار رہے پر اس  کا زیادہ کریڈٹ چین کی قیادت کو جاتا ہے چین کے ساتھ ہمارے تعلقات اتنے اچھے تھے اور اب بھی ہیں  کہ ہماری وساطت سے امریکی صدر نکسن نے  1970 ء کی دہائی میں چین کا دورہ کیا  جس کے بعد چین اور امریکہ کے تعلقات میں جو جمود تھا وہ ٹوٹا آج سی پیک کی وجہ سے ہم چین کے نہایت قریب آ چکے ہیں امریکہ چونکہ  دنیا میں چین کے بڑھتے ہوئے سیاسی اثر و رسوخ پر حاسد اور  پریشان ہے لہٰذا اس کی کوشش ہے کہ چین کے خلاف سازشوں کاایک  نیا جال بچھایا جائے ہماری قیادت کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ وہ  امریکہ کی چین کے خلاف کسی  چال میں نہ آئے اور چین کے ساتھ اپنے دیرینہ روابط کو مزید مضبوط بنائے  اگر توہم نے روس اور چین دونوں سے بنا کر رکھی اور ان دو ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر بنایا تو سیاسی معاشی اور عسکری لحاظ سے ہم اس خطے میں اپنے لئے ایک بہت بڑا مقام حاصل کر سکتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ایران افغانستان اور ترکیہ کے ساتھ مل کر ایک کنفیڈریشن کے قیام کے لئے سوچنا ضروری ہے کیونکہ اگر اس خطے میں  یہ تین ممالک یک جان دو قالب ہو جاتے ہیں تو ہمارے کسی بھی دشمن ملک کو اس خطے کی سرزمین کو اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے  لئے استعمال کرنے کا موقع نہیں مل سکے گا‘ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ بعض سپر پاورز دل سے کبھی بھی یہ نہیں چاہیں گی کہ مندرجہ بالا قسم کی کوئی کنفیڈریشن اس خطے میں عالم وجود میں آئے‘ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے دور اقتدار میں ایک مرتبہ اس قسم کی کوشش ضرور کی تھی پھر جس طریقے سے انہیں ایوان اقتدار سے ہٹایا گیا بلکہ یوں کہیے اسے صفحہ ہستی سے مٹایا گیا‘وہ اب ہماری  تاریخ  کی کتاب کا ایک المناک باب  ہے۔