وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری شنگھائی تعاون تنظیم (صثۃ) کے وزرائے خارجہ کونسل اجلاس میں شرکت کیلئے گوا (بھارت) روانہ ہوگئے ہیں۔ ایک دہائی سے زائد عرصے میں بھارت کا دورہ کرنے والے وہ پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ ہیں اور اپنے اِس انتہائی اہم دورے سے متعلق اُنہوں نے کہا کہ وہ ’ایس سی او‘ کے رکن ممالک سے ’دو طرفہ بات چیت‘ کے خواہاں ہیں۔ پاک بھارت تعلقات سردمہری کا شکار ہیں۔ ہمیشہ کی طرح اِن کشیدہ تعلقات کو بہتر بنانے کے لئے خاطرخواہ کوششیں دیکھنے میں نہیں آ رہیں۔ پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ دشمنی کے لئے کسی سے اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن دوستی کے لئے باہمی رضامندی درکار ہوتی ہے جس کا پاک بھارت تعلقات میں گزشتہ کئی دہائیوں سے فقدان رہا ہے۔ وزیرخارجہ کے اِس دورے سے قبل بھی پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے کوششیں ہوتی رہی ہیں جیسا کہ آخری مرتبہ صدر پرویز مشرف اور وزیر اعظم منموہن سنگھ کے درمیان دیکھنے میں آئیں اور اِن سے متعلق یاداشتیں اُس وقت کے سفیر ستیش لامبا نے اپنی کتاب (ِن ُءرسءیت ہف ُعاچع) میں محفوظ کی تھیں جس کا مرکزی خیال ”امن کے تعاقب میں چھ وزرائے اعظم کی کارکردگی اور پاک بھارت تعلقات ہیں“ تاہم یہ تلاش ادھوری اور تسلسل قائم نہ رہ سکا کیونکہ بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے پاک بھارت تعلقات کی بحالی میں بہت کم دلچسپی لی ہے اور ظاہر ہے کہ پاکستان تن تنہا اِس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتا جب تک کہ بھارت کی طرف سے بھی خیرسگالی کا جواب نہ آئے۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے دورہئ بھارت سے دو ہمسایہ ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری کی زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جانی چاہیئں کیونکہ اِس سلسلے میں بھارت کی سیاسی قیادت کا رویہ کسی بھی صورت اُمید افزأ نہیں ہے۔ حالیہ چند برس کے دوران اگر پاک بھارت تعلقات میں کشیدگی اور اِس کشیدگی سے حاصل ہونے والے سودوزیاں کو دیکھا جائے تو بھارت کو دیکھنا چاہئے کہ اُس نے پاکستان کے ساتھ تنازعات کو بھڑکانے سے ماسوائے رسوائی کچھ حاصل نہیں کیا اور دنیا نے پاکستان کی تائید کی ہے اور یوں پاکستان نے کچھ نہیں کھویا لیکن پاکستان میں مہنگائی بالخصوص غذائی اجناس کی قلت اور قیمتوں میں اضافے کو معمول پر لانے کے لئے بھارت کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور تجارت ایک ضرورت بن گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ 9 ماہ کے دوران‘ کم سے کم 3 مرتبہ وزیر اعظم شہباز شریف نے بھارت کو مذاکرات کی دعوت دی ہے لیکن بھارت کی جانب سے کوئی مثبت اشارہ نہیں آیا۔ صرف تزویراتی مساوات سے ممالک کے درمیان تنازعات اور درپیش چیلنجز حل نہیں ہوتے بلکہ یہ تزویراتی مساوات (اسٹرٹیجک پیرٹی) قومی طاقت کا صرف جز ہوتی ہے‘ جو ”قومی سلامتی‘ معاشی ترقی اور سیاسی استحکام“ جیسے عناصر کا مجموعہ ہوتی ہے۔ پاکستان کی داخلی سلامتی کے چیلنجز پر اگر نظر ڈالیں تو اِس میں بھارت کے عمل دخل کی وجہ سے کئی مسائل انتہائی پیچیدہ و تشویشناک صورت اختیار کر گئے ہیں۔ جیسا کہ بلوچستان میں عسکریت پسند رجحانات اور علیحدگی پسندوں کی کاروائیاں اور تحریک طالبان پاکستان جیسے قومی سلامتی کے لئے خطرات کا تعلق براہ راست بھارت سے ہے۔ دوسری طرف توقع تھی کہ افغانستان میں حکومت کی تبدیلی سے پاکستان کی داخلی سلامتی اور لاحق خطرات میں کمی آئے گی لیکن یہ توقع بھی پوری نہیں ہوئی ہے اور سال دوہزاربائیس میں گزشتہ برس کے مقابلے پاکستان میں دہشت گردی سے ہلاکتوں میں 120 سے 600 فیصد تک اضافہ ہوا ہے اور اِن سبھی واقعات میں بھارت کے مشکوک کردار نے صورتحال کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ پاک بھارت تعلقات میں متوقع بہتری کے لئے شاید ’تجارتی تعلقات‘ سے آغاز کرنے کی حکمت عملی بنائی گئی ہے جس کے لئے بھارت کے منتخب کاروباری طبقات کو پاکستان کی منڈیوں تک رسائی دی جائے گی اور اگر ایسا ہوا تو یہ پاک بھارت تعلقات معمول پر لانے کے لئے ایک بہترین آغاز ثابت ہوگا۔ بھارت تین سے چار جولائی تک ’ایس سی اُو‘ سربراہی اجلاس کی میزبانی بھی کرے گا‘ جس کا عنوان (تھیم) ”ایس سی او کا تحفظ (صعچءرع-صثۃ)“ رکھا گیا اور اِس اجلاس میں روس کیسوچ: کرشماتی دنیا صدر ولادیمر پوٹین کی شرکت بھی متوقع ہے جو روس یوکرائن جنگ کے بعد پہلی مرتبہ دورہئ بھارت کریں گے۔ پاکستان کے لئے روس سے تجارتی تعلقات اور روس کے بھارت پر اثرورسوخ کو استعمال کرنے کا یہ ایک نادر موقع ہے۔ بھارت کے ساتھ تجارت سے پاکستان کی معیشت کو زیادہ مدد ملنے کی توقعات رکھنے والے شاید اُن ساختی مسائل کو نظراندز کر رہے ہیں جن کی وجہ سے مسائل دیکھنے میں آ رہے ہیں تاہم بھارت کے ساتھ تجارت کا فائدہ دیگر کئی محاذوں پر ہو سکتا ہے لیکن ایسا صرف اُسی صورت ممکن ہے جب بھارت کے ساتھ تجارت سے قبل ’مقبوضہ کشمیر‘ سے متعلق بھارت کی داخلہ پالیسی میں تبدیلی کی کوئی پیشگی شرط نہ رکھی جائے کیونکہ اب تک ایسا کرنے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوا ہے۔ بھارت اور دیگر ممالک سے علاقائی سطح پر تجارت کے فروغ سے پاکستان کے معاشی مسائل میں بہتری اور قومی سلامتی کو لاحق خطرات میں کمی ممکن ہے۔