ہے یہ مرا افسانہ

تتلیاں اڑتی ہیں اور ان کو پکڑنے والے بعض ان رنگین ذی روحوں کو اٹھا کر ہاتھ میں تھامی ہوئی کتاب کھول کراس میں زندہ و سلامت رکھ کر کتاب بند کر دیتے ہیں۔ یہ کتنا سفاکانہ عمل ہے مگر ہمارے ہاں بطورِ فیشن رائج ہے‘جیتی جاگتی تتلیاں اپنے رنگوں کی بھرپور رعنائی کے ساتھ کتاب کے تابوت میں بند کر دی جاتی ہیں۔جیسے ان میں ہر کوئی انار کلی ہو اس کو زندہ دیوار میں چنوا دیا جائے۔یہ تتلیاں اندر اندر مر جاتی ہیں۔گھٹن کی اس فضا میں یہ بھلا کب تک جی پائیں گی۔پھر یہ البیلی جوانیاں جب تتلیوں کو بند کر لیں تو ان مردہ تتلیوں کو دوچار دنوں تک دیکھتی ہیں۔ایک دوسرے کو کتاب بھی گفٹ کی جاتی ہے۔مگر ان کاشوق بس اتنا ہی ہوتا ہے۔اس کے بعد بے فکری ذہنیت کے مارے ہوئے لوگ ان تتلیوں کے رنگوں کو بھول جاتے ہیں۔جب مہینہ بھر کے بعد وہ اتفاق سے اسی کتاب کو کھول کر دیکھتے ہیں تو اندر وہی تتلی جو زرق برق رنگوں میں تھی اپنی رنگت کھوچکی ہوتی ہے۔مگر یہ اپنے اس ناروا عمل پرپشیمان تو کیا ان کے ماتھے پر پسینہ تک نہیں آتا کہ انہوں نے کیا کر دیا۔پھول بھی سائنسی طور پر جاندار ہیں اور تتلیوں کی ننھی سی روح  کے تتلی کے وجود میں ہونے میں شک ہی کیا ہے۔ ہم لوگوں کے بھی کیا کیا شوق ہیں۔کمال یہ ہے کہ ہمیں اگر کوئی چیز پسند آ جائے تو اس کو تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔ اتنا پسند کرلیتے ہیں کہ اس کو خوبصورت رہنے ہی نہیں دیتے۔پھول توڑ لیتے ہیں پھر اس کو چھوڑ دیتے ہیں۔یہ تو دل کو بھی توڑ دیتے ہیں اور دلوں کو بھی توڑتے پھرتے ہیں۔”یہ درختوں کو بھی چاقو سے چھیل کر ان پر اپنا یا کسی دوست کا نام کھود کر لکھ لیتے ہیں۔ تاکہ جب ہم دوبارہ آئیں تو یہی نام لکھے ہوئے دیکھیں۔ اب یہ عمل کتنا برا ہے۔ٹھیک پھولوں کو اوردرست اڑتی ہوئی تتلیوں کو جگمگاتے جاگتے پھولوں کو یہ ایک نظر دیکھنا نہیں چاہتے۔یہ خوبصورت مناظر ان کو نہیں بھاتے۔یہ ان کو پُر خراش بنا ڈالتے ہیں۔ان پر خراشیں ڈال کر اپنے وجود کے ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ بلکہ بحیثیت قوم اپنا تعارت کرواتے ہیں کہ دیکھو ہم تو یہ ہیں۔جو کچھ کر سکتے ہو کر لو۔ہمارا تعارف اچھا ہونا چاہئے۔دوسری اقوام کا ذکر کرنا ہی پڑتا ہے جب ترقی اور اخلاق اور تہذیب و شائستگی کی بات در آتی ہے تو ہم دوسری اقوام کی مثالیں دیتے ہیں۔پھر اچھی مثالیں اسی ل ئے ہوتی ہیں کہ خود کو ان عادات و اطوار کے مطابق ڈھالا جائے جن کی ہمیں ضرورت ہے۔جن کو ہم اپنے ہاں رائج کرکے اچھے لوگ ہونے کاثبوت دے سکتے ہیں۔یہ تو درختوں کو چاقو سے کیا چھیلیں گے سالم درختوں ہی کو کاٹ ڈالتے ہیں۔ ماحول کو گنجا کر دیتے ہیں۔ بے آب وگیاہ ویرانے کا روپ دے دیتے ہیں۔پھر شعر بھی کہہ دیتے ہیں ”کبھی کتابوں میں پھول رکھنا کبھی درختوں پہ نام لکھنا۔ ہمیں بھی ہے یاد آج تک وہ نظرسے حرفِ سلام لکھنا“۔ حسن رضوی کا یہ شعر ہمارے قومی رویے کا کس قدر بہترین عکاس ہے۔ہم جوانی کے عالم میں یہ تمام الٹی سیدھی حرکتیں کرتے ہیں او رپھر بعد میں فخریہ طور پر ان کو یاد کرتے ہیں۔ مگر باشعور لوگوں کے ہاں اس قسم کی غیر ذمہ دارانہ حرکتوں کی مثال نہیں ملتی۔درختوں کو کاٹ کر ہم ماحول کو یتیم کر دیتے ہیں۔ جس ماحول پر سرسبزی کی کوئی چھایا نہ ہو۔وہ ماحول حبس زدہ ہو جاتا ہے۔خود اپنے لئے گویا بیماریوں کی فضا پیدا کردیتے ہیں۔اپنی املاک کو خود ہی تباہ کرتے ہیں۔ جلسوں میں نہیں دیکھتے کہ ہم اگر کسی  عمارت کو نقصان پہنچا رہے ہیں تو وہ ہماری اپنی ہے۔اس نقصان کو اگر پورا کیا جائے گا تو وہ ہمارے سالانہ بجٹ میں سے کٹوتی کر کے پورا ہوگا۔پھر عین ممکن ہے کہ وہ ہمارے تعلیمی اخراجات کو کم کرکے وہاں سے اس نقصان کو پورا کریں۔اس سے تو یہی ظاہر ہے کہ ہمارا نقصان ہر حالت میں ہوگا۔مگر ہم اس باریکی سے آشنا نہیں ہیں۔ہم نہیں جانتے کہ اگر کسی عمارت کو پتھر مارتے ہیں تو خود اپنی ہی تصویر کے فریم کے شیشے کو پتھروں سے چکنا چور کرتے ہیں۔یہ تو بعد میں جب ہمیں سمجھ بوجھ حاصل ہوتی ہے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ہم کیا کرگزرے ہیں۔