سینما کلچر کی نشاۃ ثانیہ 

 ایک لمبے عرصے تک وطن عزیز میں سینما کلچر عام آدمی کو سستے نرخ پر تفریح کا سامان فراہم کرتا تھا ہر شخص اپنی مالی بساط کے مطابق  ہر روز تین بجے سے لے کر رات  10 بجے تک سینماگھروں میں چلنے والے فلم شوز میں چھ آ نے سے لیکر ڈھائی روپے تک سینما گھر کا ٹکٹ  خرید کر تین گھنٹے تک بڑی سکرین پر فلم دیکھ سکتا تھا ایک ایسا دور بھی تھا کہ سینما گھروں  کی  ملک بھر میں تعداد  ڈھائی ہزار کے قریب جا  پہنچی تھی ان سینما گھروں کی موجودگی میں ان میں کام کرنے والے عملے کے  ہزاروں افراد کے گھروں کے چولہے گرم تھے‘خیبر پختونخوا کی ہی مثال لے لیتے ہیں ڈیرہ اسماعیل خان سے لیکر مالا کنڈ تک تقریباً تقریباً ہر بڑے چھوٹے شہر میں سینما گھر موجود تھے جن میں پاکستانی فلموں کے علاوہ ہندوستانی اور انگریزی فلمیں بھی  چلا کرتی تھیں اردو زبان کی فلموں کے ساتھ ساتھ پنجابی انگریزی  اور پشتو زبان کی فلمیں بھی ان میں 
 نمائش کیلئے پیش کی جاتیں‘1965 ء تک تو  یہ سلسلہ بڑے زور و شور کے ساتھ چلتا رہا جب تک مارکیٹ میں ہندوستانی فلمیں پاکستانی فلموں کے شانہ بشانہ چلتی رہیں تو مقابلے کے عنصر کی وجہ سے ہماری فلموں کا معیار بلند رہا ہم بات کر رہے ہیں پرانی ہندوستانی فلموں کی‘سینما گھر صرف اسی وقت تک منافع بخش رہتے ہیں کہ جب تک ان میں نمائش کے لئے پیش کی جانے والی فلمیں معیاری ہوں جن کو  دیکھنے کے لئے فلم بین جوق در جوق سینما گھروں کا رخ کریں ایک دور تھا کہ جب پشاور شہر میں کابلی دروازے کے پچھواڑے سینما روڈ پر تین سینما گھر پکچر ہاؤس‘ ناولٹی اور تصویر محل اپنی پوری جولانیوں کے ساتھ موجود تھے لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے قریب آ سامائی گیٹ کے پاس ناز سینما گھر تھا جس کا پرانا نام روز سینما ہوا کرتا تھا جناح پارک کے قرب میں سینما تھا اور اس کے قریب ہی میٹرو اور صابرینہ سینما گھر تھے ناز سینما گھر میں زیادہ تر انگریزی فلمیں دکھائی جاتی تھیں پشاور صدر میں لینڈزڈاؤن سینما گھر تھا جس کا بعد میں نام بدل کر فلک سیر رکھ دیا گیا تھا اور ارباب روڈ پشاور صدر میں کیپٹل سینما کے نام سے ایک سینما گھر ہوا کرتا تھا یہ دونوں سینما گھر  صرف انگریزی فلمیں ہی چلاتے تھے اب اکثر قصہ پارینہ  ہو چکے ہیں‘بعد میں دو چار نئے سینما گھر پشاور میں ضرور بنے پر جو پرانے سینما گھر تھے اور جن کے ساتھ پشاور کے سینما کلچر کی تاریخ جڑی ہوئی ہے ان کے نام ہم نے اوپر کی سطور
 میں درج کر دئیے ہیں جن چندلاجواب  فلموں کے نام ہم اب درج کرنے جا رہے ہیں جو ان سینما گھروں کی زینت بنی تھیں ان میں زیادہ تر فلمیں بلیک اینڈ وائٹ ہی تھیں‘کرتار سنگھ‘باجی‘ سہیلی‘ سات لاکھ‘انتظار‘ جھومر‘ مکھڑا‘دلا بھٹی‘قیدی‘ آن‘ دیدار‘ انداز‘دیوداس‘گلفام داغ‘ جوگن‘فٹ پاتھ آوارہ‘آہ‘ پشتو فلم اوربل‘ زرقا  زندگی یاطوفان‘ھلچل‘برسات‘امر‘ سنگدل‘ترانہ‘ ھیر رانجھا‘ زہر عشق‘انار کلی‘ قاتل‘ گمنام‘یکے والی‘ سر فروش‘ درشن‘ارمان وغیرہ وغیرہ اس لمبی چوڑی تمحید کا مقصد یہ تھا کہ سینما ہاؤس کا کلچر جب تک وطن عزیز میں موجود تھا عام آدمی کو انٹرٹینمنٹ کے میدان میں اپنی تفریح طبع کیلئے ایک ایسا ذریعہ میسر تھا کہ جس کا لطف لینے کی غرض سے اس کی جیب اسے اجازت دیتی تھی نیز جو فلمیں سکرین کی جاتی تھیں ان پر سنسر بورڈ کی تیز چھری پہلے چلائی جاتی تھی اس لئے ان فلموں میں کوئی اخلاق سوز مواد شاذ ہی دکھایا جاتا تھا۔