بہت ہی کم تعداد میں لوگ اِس بارے میں سوچ رہے ہیں یا اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ پاکستان میں موجودہ معاشی بحران کی وجہ سے اکثریت کو کس قدر تکلیف ہو رہی ہے۔ بھوک و افلاس اور محرومیوں میں کس قدر اضافہ ہو چکا ہے اور صحت عامہ کو کس قدر خطرات لاحق ہیں۔ متوسط طبقے کے لئے معیاری تعلیم ہر دن خواب بنتی جا رہی ہے۔ والدین بچوں کی پرورش میں اپنے کھانے پینے کی بھی قربانی دے رہے ہیں تو یہ ایک غیرمعمولی صورتحال ہے اور اِس سے اُبھرنے والی تصویر انتہائی افسوسناک ہے جس سے متعلق فیصلہ سازوں میں خاطرخواہ تشویش نہیں پائی جاتی گردوپیش میں دیکھیں آپ کو ایسے بچے دکھائی دیں گے جو ’کم غذائیت‘ کا شکار ہیں اور اُن کی خاطرخواہ جسمانی نشوونما نہیں ہو رہی‘ پاکستان کے اِن تلخ حالات کا جس قدر جلد ادراک اور اِنہیں تسلیم کر لیا جائے گا اُتنا ہی اِن کے مسائل حل کی کوششیں اور انسداد غربت کے لئے قومی کوششوں میں اضافہ بھی ہوگا۔ پاکستان کو اِس بات پر غور کرنا چاہئے کہ دنیا میں اس کے
بہت ہی کم دوست رہ گئے ہیں۔ دنیا میں پاکستان کی جغرافیائی تزویراتی اہمیت بھی وقت کے ساتھ کم ہو رہی ہے ظاہر ہے کہ یہ دن اپنی غلطیوں کی وجہ سے دیکھا جا رہا ہے کہ پاکستان کے پاس موجود اپنے تیل و گیس‘ کوئلے‘ سونے چاندی‘ قیمتی پتھروں اور دیگر قیمتی و نیم قیمتی معدنیات کے ذخائر تو موجود ہیں لیکن اُنہیں ترقی نہیں دی گئی۔ دوسری طرف جب بھارت کو دیکھا جاتا ہے تو وہاں بھارت کی عالمی ساکھ اور شبیہ میں اضافے کے لئے ’شائننگ انڈیا‘ اور ’پھلتے پھولتے اِنڈیا‘ جیسی مہمات وضع کی گئی ہیں اور تمام تر توجہ قومی ترقی اور قومی وسائل سے استفادے پر مرکوز نظر آتی ہے لیکن پاکستان کا نام لیتے ہی ذہن میں ایک معاشی طور پر ’پریشان حال‘ ملک کا تصور اُبھرتا ہے‘ اداروں کے درمیان اور اداروں کے اندر ماحول سازگار نہیں جن کا حاصل پاکستان کو مضبوط کرنے کی بجائے اِسے کمزور کر رہا ہے اور مقام حیرت یہ ہے کہ آخر پاکستان ترقی کی راہ پر دوبارہ گامزن کیسے ہوگا؟ ملک کے سیاسی تنازعات کو دیکھتے ہوئے محسوس ہو رہا ہے کہ آنے والے دو سے تین سال انتہائی مشکل ہوں گے اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ سیاسی عدم استحکام کے باعث قومی وسائل بشمول انسانی وسائل میں خاطرخواہ سرمایہ کاری نہیں ہو رہی۔ قومی تعمیروترقی کا عمل بھی معاشی مشکلات کی وجہ سے رکا ہوا ہے اور ذہین و قابل پاکستانیوں کی بڑی تعداد ملک چھوڑ کر جانے میں عافیت محسوس کر رہی ہے۔پاکستان کا موازنہ جنوبی ایشیائی ممالک سے کرنے پر احساس محرومی مزید بڑھ جاتا ہے۔ اِس ناگفتہ بہ صورتحال میں سارک ممالک کے اتحاد سے فائدہ اُٹھایا جانا چاہئے۔ اب تک جنوبی
ایشیائی ممالک میں پاکستان ترقی کا مرکز ہونا چاہئے تھا لیکن نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان تنازعات کی وجہ سے علاقائی ممالک ایک دوسرے کے وسائل سے خاطرخواہ فائدہ نہیں اُٹھا رہے۔ نئی دہلی کی ہٹ دھرمی اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے پاکستان کے لئے ممکن نہیں کہ وہ اپنی خودداری اور دیرینہ مؤقف پر سمجھوتہ کرے‘پاکستان میں سیاحت کی بحالی کے لئے کوششیں وقت کی ضرورت ہیں اور حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے سیاحتی وسائل اُجاگر کئے جائیں تو ہمارے سیاحتی مقامات دنیا بھر کے لئے کشش کا باعث بن سکتے ہیں۔ پاکستان کے فیصلہ سازوں کے لئے سوچ بچار اور عمل کے مراحل لاتعداد ہیں اور یہی صورتحال عوام کی بھی ہے کہ جن کے پاس لاتعداد سوالات ہیں۔ اِس بوجھل دور میں جبکہ معاشی مشکلات میں گھرا ہوا ایک عام آدمی اگرچہ ’خاموش‘ ہے لیکن اُس کی خاموشی ہر دن گہری اور اُس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا دکھائی دے رہا ہے جو معلوم نہیں کیا رنگ لائے گا؟۔