اقوام متحدہ کے زیراہتمام قطر(دوحہ) میں افغانستان کے حوالے سے ایک اہم اجلاس اس پس منظر کے ساتھ منعقد کیاگیاہے کہ اس میں افغانستان میں برسراقتدار امارت اسلامی افغانستان کے کسی نمائندے کو شرکت کی دعوت نہیں دی گئی ہے واضح رہے کہ یہ اجلاس جسے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹیرس نے طلب کیا تھا میں امریکہ، چین اور روس کے نمائندوں سمیت بڑے یورپی امدادی اداروں کے نمائندگان اورافغانستان کے پاکستان جیسے اہم ہمسایہ ممالک کے علاوہ تقریباً 25 ممالک اور گروپوں کے نمائندوں نے شرکت کی۔ اجلاس سے قبل اقوام متحدہ کے سربراہ کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہاگیاتھا کہ اس اجلاس کا مقصد خواتین اور لڑکیوں کے حقوق، جامع طرز حکمرانی، انسداد دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ کے بارے میں عالمی برادری کے اندر طالبان کے ساتھ رابطے میں رہنے کے بارے میں مشترکہ کوششوں کو فروغ دینا تھا۔یہ اجلا س ایک ایسے وقت میں منعقد ہو اہے جب گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل طالبان حکومت کی جانب سے خواتین کی تعلیم اور ملازمت پر پابندی کے فیصلے کی مذمت کرچکی ہے جسے طالبان حکومت نے مسترد کردیا تھا۔ یہ بات قابل غور ہے کہ تقریباًپونے دوسال ہونے کے باوجود کسی بھی ملک نے افغان انتظامیہ کے ساتھ باضابطہ تعلقات قائم نہیں کئے ہیں‘اقوام متحدہ اور واشنگٹن کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ طالبان حکومت کو تسلیم کرنا اس اجلاس کے ایجنڈے میں شامل نہیں تھا۔دراصل گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی ڈپٹی سیکرٹری جنرل آمنہ محمد کے اس تبصرے کہ دوحا اجلاس طا لبان حکومت کو اصولی طور پر تسلیم کرنے کا باعث بن سکتاہے کہ تناظر میں بعض مبصرین کا خیال تھا کہ شاید اس اجلاس میں طالبان حکومت کی منظوری کے حوالے سے بھی کوئی پیش رفت ہوسکتی ہے لیکن اب اقوام متحدہ کے ترجمان نے اس حوالے سے دوٹوک بیان دے کر ایسے کسی امکان کو رد کردیاہے جسے یقیناً کسی بھی لحاظ سے حوصلہ افزاء قرارنہیں دیاجا سکتا ہے۔ دوحہ اجلاس میں امارت اسلامی افغانستان کی عبوری حکومت کو مدعو نہ کرنے پر کابل کی طرف سے غصے کا ردعمل سامنے آیاہے‘عبوری حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا ہے کہ افغانستان سے متعلق اجلاسوں میں کئی چیزیں اہم ہیں ایک یہ کہ وہاں افغانستان کا نمائندہ ہونا چاہیے تاکہ ہم اپنا موقف پیش کریں۔اسی طرح اقوام متحدہ کی پوزیشن افغانستان کے ساتھ تعمیری اور تعاون پر مبنی ہونی چاہیے۔ مبصرین کا دوحہ اجلاس کے متعلق کہنا ہے کہ اس اجلاس سے بین الاقوامی برادری کی افغانستان کے بحران سے نمٹنے میں دلچسپی کااظہار ہوتا ہے جسے اقوام متحدہ اپنا سب سے بڑا انسانی بحران سمجھتا ہے۔اقوام متحدہ کا کہناہے کہ اس اجلاس کے شرکاء نے افغانستان کے اندر جاری انسانی بحران سے نمٹنے کے طریقوں اور ذرائع پر توجہ مرکوز رکھی اور سب سے اہم موجودہ بحران کا سیاسی حل تلاش کرناہے۔سفارتی ذرائع کایہ بھی کہناہے کہ توقع تھی کہ ا قوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل افغانستان میں عالمی ادارے کے اہم امدادی آپریشن کے جائزے کے بارے میں اپ ڈیٹ دیں گے قوام متحدہ نے کہا ہے کہ اسے 38 ملین کی آبادی والے ملک میں اپنے بڑے آپریشن کو برقرار رکھنے کے حوالے سے ایک ”خوفناک انتخاب“ کا سامنا ہے اقوام متحدہ کو رکن ممالک کی مشاورت سے یہ فیصلہ کرناہے کہ آیا اس آپریشن کوجاری رکھناہے یا پھر اس سے دستبردارہونا ہے آزاد ذرائع کادوحہ کانفرنس کے متعلق کہناہے کہ اقوام متحدہ نے طالبان کو اس کانفرنس میں مدعو نہ کر کے کوئی دانشمندانہ فیصلہ نہیں کیا ہے کیونکہ وہ ایک زمینی حقیقت ہیں اور ان کی شرکت کے بغیریہ اجلاس غیر موثراور غیر نتیجہ خیز ہو گا۔طالبان کی وزارت خارجہ کے ترجمان عبدالقہار بلخی نے طالبان کو دوحا مذاکرات میں مدعو نہ کرنے پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاہے افغان حکومت کی شرکت کے بغیر افغانستان کے بارے میں کوئی بھی ملاقات بلا سود اورغیر موثر ہوگی‘ اس اجلا س کی ایک اور اہمیت اگر ایک جانب اس میں طالبان کو مدعونہ کیاجانا تھا تو دوسری جانب طالبان کا یہ دعویٰ ہے کہ انہوں نے دوحامعاہدے کے بعد برسراقتدار آنے سے لیکر اب تک دوحہ معاہدے کی تمام شقوں کی مکمل پابندی کی ہے‘ مغربی ممالک خواتین کی تعلیم اور روزگار سے متعلق جو منفی پروپیگنڈہ کررہے ہیں اگر یہ قوتیں اس صورتحال کا زمینی حقائق اور طالبان کے نقطہ نظر سے جائزہ لیں تو انہیں یہ بات سمجھنے میں مشکل نہیں ہوگی کہ طالبا ن بچیوں کی تعلیم کے خلاف نہیں ہیں۔