جھولا کون جھلائے 

ہر جھولے میں ہر بندہ بیٹھ سکتا ہے۔عمر کا اندازہ نہیں اور نہ ہی جھولوں کے مضبوط ہونے کا ان کے پاس کوئی ثبوت ہے۔بس یہ ہے کہ جو شہری آتے ہیں وہ اونچے اونچے جھولوں کو دیکھ کر دل کی تسلی حاصل کرلیتے ہیں کہ جب یہ لوگ جھولے پر سے نہیں گر تے تو ہم کیوں گریں گے۔ سو وہ زن و مرد آگے پیچھے کے کیبن میں جھولا جھولنے بیٹھ جاتے ہیں۔اتنا بھی ہو کہ خواتین کے لئے الگ جھولے ہوں اور مردوں کے لئے جدا جھولے لگے ہوں۔مگر یہاں تو وہ عالم نہیں ہے۔پانی کی سطح سے اٹھ کر ہوا میں تیرنے والی کشتی میں لڑکیاں اور لڑکے اکٹھے بیٹھے ہو تے ہیں۔ ایک ناسازگار او رکریہہ المنظر قسم کا ماحول ہو تا ہے۔جس میں آوارہ مزاجی کو بہت زیادہ دخل ہے۔لڑکے بالے ناحق کی چیخیں لگاتے ہیں۔ جن میں مصنوعی پن ہوتا ہے اور ان کی چیخ وپکار کی وجہ سے وہاں کشتی یا اور کسی جھولے میں ان کی مستی کے کارن ایک خوف کی فضا پیدا ہو جاتی ہے۔جس کی وجہ سے خواتین گھبرا جاتی ہیں۔کوئی الٹیاں کرنے لگتی ہیں اور کوئی شور مچا مچا کر جھولے کو روکنے کی آوازیں دیتی ہیں۔پھرآج کل تو ایک اور مسئلہ بھی ہے کہ جھولے کے راؤنڈ بھی کم ہو گئے ہیں۔بجلی روز بروز مہنگی ہو رہی ہے۔ظاہر ہے کہ جب جھولے بجلی کے زور پر چلتے ہیں تو عملہ بجلی بچانے کی غرض سے جھولوں کے پھیر کم کردیتا ہے بلکہ جھولے میں بیٹھو تو تین چار چکروں کے بعد جھولا رک جاتا ہے۔نتیجہ یہ کہ وہاں جو دہی بڑے اور چھولے کلول آئسں کریم او رکولڈ ڈرنک اور دیگر کھانے پینے کی چیزیں ملتی ہیں وہ بھی بجلی یا عام مہنگائی کی وجہ سے ناقابلِ حصول ہو جاتی ہیں۔پارک میں جانے کا اتفاق ہوا مگر پارک میں جھولے اور روشنیاں اور کھانے پینے کی اشیاء کے ہوتے سوتے یہ پارک ویران تھا۔ پارک میں جاؤ تو دو ایک بندو ں کے لئے کم از کم ہزارکا نوٹ پاس ہو مگر ضروری نہیں کہ اتنے خرچے میں کام چل جائے لیکن کھینچ تان کر بھی خرچ کریں تو ہزار کا نوٹ خرچ کر کے بھی دل کو خفا کر کے گھرلوٹیں گے کیونکہ بچوں کی تسلی نہیں ہوئی ہوگی۔ پھر بچے کہاں سمجھتے ہیں کہ پاپا کی جیب میں رقم ہے کہ نہیں۔بچوں کے  اداس چہرے والدین سے نہیں دیکھے جاتے وہ ہزار کے بجٹ کے علاوہ بھی ڈھونڈڈھانڈ کر جیب سے مزید خرچہ نکالتے ہیں  پھر اس کی کسر وہ گھر کی کھانے پینے کے بجٹ پر کٹوتی کر کے نکالتے ہیں۔پھر جھولے بھی کون سے نئے اور امپورٹڈ ہوتے ہیں۔یہاں کے بنے ہوئے جھولے لا کر یا سرکس ختم ہو جانے پر وہاں سے اکھاڑ کر پارکوں میں لا کر سجا دیئے جاتے ہیں۔اس وجہ سے وہ جھولے ناقابلِ اعتبار ہو جاتے ہیں۔ اگر کسی کا بچہ جھولے پر سے گر جائے تو ان کا کیا جاتا ہے۔ان کو تو رقم اینٹھنے سے کام ہے باہر کے ملکوں میں ہمارے ان بچگانہ جھولوں سے سو درجہ خطرناک جھولے ہیں مگروہا ں شہریوں کی سکیورٹی کا بندوبست بھی ہوتا ہے۔یہاں ہر جھولے کو سٹارٹ کرنے سے پہلے اس کو ہر بار چیک کرناچاہئے تاکہ کوئی خرابی جو نظر آ جائے اسے نظر انداز نہ کیا جائے اس غفلت کی وجہ سے پہلے بھی بہت حادثا ت ہو چکے ہیں پھر کچھ غفلت جھولا جھولنے والے بھی کرتے ہیں۔ابھی کراچی کے ڈیفنس کے ایریا کے پارک میں وہا ں سترہ سالہ نوجوان نیچے جھکا تو سیدھا زمین پر آ رہا‘ یہ ٹین ایج انتہائی خطرناک دور ہے کہ جس سے ہر انسان گزرتا ہے اگر اس عمر کی جوانیوں پر ماں باپ کی طرف سے قابو نہ ہو تو یہ اپنے آپ کو برباد ہی کر دیتے ہیں۔ہمارے ہاں تو زیادہ تر مرمت کئے ہوئے جھولے استعمال ہوتے ہیں۔پھر جو چھوٹے موٹے جھولے ہیں جن میں خطرناک ہونے کی کوئی بات نہیں ان میں بزرگ بھی بیٹھ جاتے ہیں اس میں بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں مگر وہ جھولے کہ جو آسمانوں کو چھوتے ہوں ان میں بیٹھنے سے پہلے شہریوں کو حد درجہ احتیاط سے کام لینا چاہئے۔یہاں ہر عمر کے جھولے ہونے چاہئیں مگر عالم تو کچھ اور ہے یہاں ہر عمر کے لوگ ہر جھولے میں بیٹھتے ہیں۔ایک ہی آدمی کے پاس مختلف جھولوں کا بٹن ہوتا ہے‘وہ پرانے جھولوں کو بار بار ٹھیک کروا کے وہا ں نصب کر دیتے ہیں نئے جھولے کہاں سے لائیں گے وہ تو انہیں جھولوں کو گول گول گھما کر ان سے گنے کے رس کی طرح روپوں کی مٹھاس کشید کرنا چاہتے ہیں۔