میری تحریروں میں اگر کوئی سنجیدگی کی امید رکھے تو بے جا ہوگا۔کیونکہ میری کوشش گپ شپ سے ہے۔روزمرہ کے واقعات اور ان کا بیان مگر شائستہ نہ سہی شگفتہ انداز سے کرنا ہمارا مشن ہے۔دوست یار عزیز تو سرِ عام پکار اٹھتے ہیں کہ یہ تم کیا لکھتے ہو۔جس ٹاپک پرمیں نے آپ سے کہا اس پر تو آپ نے قلم اٹھایا ہی نہیں۔ مگر ان کو کیسے کہوں کہ میں توان موضوعات کو زیرِ بحث لاتا ہوں جن میں زیادہ تر مزاح کا چٹخارا ہو اور عام روزمرہ کی زندگی پیش کی گئی ہو۔جس کا تعلق شہر کے ہر بندے سے ہو۔شہر سے یاد آیاکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ شہر سے نکلیں۔مگر ہم ہیں کہ اپنی محبت میں اس شہرِ بے پایاں کے زیرِنگین ہیں۔بازار میں رش کا احوال بیان کر لیا۔ دوسری طرف ٹریفک اہل کاروں کی کسمپرسی کی داستان کہ وہ کھڑے بھی ہیں تو ٹریفک کی خلاف ورزیاں کرنے والے نوجوان اپنا خوب دھڑلے سے قانون کو ہاتھ میں لے کر بھاگ جاتے ہیں۔جیسے ان کے ہاتھ بہت خاص چیز لگی ہو۔ جس طرف دیکھو اپنی من مانی کے چرچے ہیں اور اس پر عمل کرنے والے ہمارے بھائی ہیں۔مگر ہم جب شروع میں کالم کو مشکل کر کے لکھتے تھے تو کالم جلد لکھا جاتا تھا اور پھر عوامی پسند بھی تو نہ تھی۔کوئی فیڈ بیک بھی تو نہ دیتا۔ مگر ہم نے اتفاق کہہ لیں یا لوگوں کے پے درپے مختلف اوقات اور مقامات پر سامنے آنے والے بیانات کہ تم بہت مشکل کالم لکھتے ہوجب آسان لکھنا شروع کردیا تو یہ ہمارے لئے اور مشکل ہوگیا کیونکہ آسان لکھنا از حد دشوا رہے۔پھر آسان لکھنے کا مطلب یہ بھی نہیں کہ کالم لکھنے بیٹھے تو کالم جلد ہی لکھ لیا۔اس پرتو مشکل کالم والی تحریر سے زیادہ وقت صرف ہوتا ہے۔کہیں کھڑے ہوگئے راہ چلتے ہوئے تربوز کا نرخ پوچھ لیا۔ایک نے دو تربوز ڈیڑھ سو روپے میں دے دیئے اور دو چار دنوں کے بعد ایک ہتھ ریڑھی والے نے ایک تربوز ایک سو بیس میں دے دیا۔پھر رات گئے کا وقت اور ویران مقام جہاں کسی گاہک کا آنا بظاہر نا ممکن لگ رہا تھا۔مگر ریڑھی والا ٹس سے مس نہ ہوا اور ایک روپیہ بھی کم نہ کیا۔ وہ سمجھ گیاتھا کہ اس گاہک کو بھی کہیں اور سے تربوز نہیں ملنے والا۔سو وہ اپنی بات پرقائم رہا او رہم نے بہ امرِ مجبوری ڈیڑھ سو میں دو تربوز کے نرخ سے ہٹ کر گھر کے قریب ایک ہی مہنگے داموں خرید لیا۔ کیلوں کا نرخ صرف پوچھنے کی حد تک پوچھا کہ دیکھیں بازار کا بخار تھرمامیٹر میں کتنا دکھائی دیتا ہے۔معلوم ہوا کہ کیلے چار سو روپے میں فی درجن۔ یہ سن کر توہمارے ہاتھوں کے طوطے ہی اڑ گئے بلکہ ساتھ ہمارے ہوش بھی فلائی کر گئے۔جب یہ باتیں ہمارے قلم سے ٹپکنے لگیں تو ان باتوں کو بہت پسند کیا جاتا ہے۔پھر باقاعدہ ہمیں اس کا فیڈبیک بھی آتا ہے۔سو جب کسی فنکار خیر ہم تو فنکار نہیں بیکار ہیں کی تعریف ہو تو وہ پھولے نہیں سماتا او راس تعریف کی روشنی میں اپنے فن کو مزید نکھارتا ہے بلکہ از خود کبھی اس کو معلوم نہ بھی ہو اس کافن ترقی کرتا جاتاہے۔پھر سیریس ٹاپک پر لکھنے والے ہمارے احباب خدا رکھے موجودہیں وہ جب ہیں تو ہمیں کیا ضرورت ہے‘ مگر ہم کیا کریں کہ سنجیدہ موضوعات پر لکھنا ہمارے لئے بہت مشکل ہوتا ہے۔ کیونکہ ہم تو کالموں میں گپ لگا کر اس قدر عادی ہو گئے ہیں کہ اب ہمیں زندگی جو پہلے سنجیدہ لگتی تھی اب تو گپ بلکہ گپ شپ نظر آنے لگی ہے بلکہ ہم تو استاد ہو کر اپنے آپ کو طالب علم ہی سمجھتے ہیں۔کتنے دوست تو باقاعدہ ناراض ہو گئے ہیں۔ ایک الزام یہ کہ یہ تو شہر سے باہر نکلتا ہی نہیں۔ہمیں چھوڑ دو کہ ہم شہر حفاظت کے لئے اس کی اقدار اور رسوم و رواج کے آگے کھڑے ہو کر پہرا دیں۔ وہ خود تو کبھی کالام ناران اور مری نتھیا گلی میں سے ہو ہو کر آتے او رپھر جاتے ہیں او رہم اپنے شہرکے سولہ دروازوں کے باہر سولہ جسموں کے ساتھ ایک روح لئے کھڑے ہیں کہ اس کے ماضی کی حفاظت نہ کرسکے تو یہ دیکھیں کہ کون نیا اندر آیا او رکون پرانا ان دروازوں سے نکل کر کہا ں گیا۔