جب سگریٹ نوشی پر پابندی عائد ہے‘ یہ نشہ عام پبلک مقامات پر نہیں کیا جا سکتا‘محفل میں سگریٹ پینا ہو تو ساتھ والے آدمی سے پوچھنا ہوگا‘ اس پر بھاری او ربوجھل ٹیکس ہے‘ یہ تعلیمی اداروں میں پینا ممنوع ہے‘سگریٹ مہنگا ترین ہے‘اتنا کہ اچھا سگریٹ ڈبی میں سے پچاس کا ایک لو جب صحت کے لئے مضراور سگریٹ کی ڈبیا پر کینسر کے مریض کی شکل چھاپ کر پینے سے ڈراتے ہیں پھر اس کی خرید و فروخت پر پابندی کیوں نہیں؟ چلیں اس کو چھوڑیں کہ یہ کاروبار ہے اس سے لوگ اور حکومت روپیہ کماتے ہیں مگر یہ بتلائیں کہ ٹی وی پر جو ڈرامے دکھلائے جاتے ہیں ان میں بعض ہیرو کو سگریٹ پیتے ہوئے کیوں دکھلایا جاتا ہے مگر ساتھ سکرین کے فریم میں لکھا آتا ہے سگریٹ نوشی صحت کے لئے مضر ہے ایسا آخر کیوں ہے؟اگر یہ اتنی زیادہ بری چیز ہے تو ہیرو کو سگریٹ پیتے ہوئے نہیں دکھلانا چاہئے تاکہ دوسرے اس سے برا سبق حاصل کر کے سگریٹ نہ شروع کر دیں‘ کیونکہ سگریٹ کی عادت اختیار کرنے والے ہمیشہ دوسرے کو دیکھ کر سگریٹ پینا شروع کر تے ہیں پھر ہیروسے لوگ بہت متاثر ہوتے ہیں پہلے سگریٹ کے اشتہارات ٹی وی پر بہت عام تھے جن کی وجہ سے نوجوانوں نے سگریٹ نوشی شروع کر دی لیکن اب بھی سگریٹ کی عادت بندے کو لگ جاتی ہے لوگ پہلی بار سگریٹ کیوں پیتے ہیں اس کا تو صاف جواب یہ ہے کہ جیسی محفل ہوتی ہے بندہ ویسا ہی اثرلیتا ہے‘پہلے پہل دوستوں کے گروپ میں جو سگریٹ نہیں پیتا اس کو آفر کرتے ہیں لو یار سگریٹ پیؤ اس کو غیرت دلائی جاتی ہے یارانہ تو ایسے نہیں ہوتا‘یار بن کر دکھلااور لے سگریٹ پی۔ لوگ یاروں کی خاطر کیاکچھ نہیں کرتے او رتُو ایک سگریٹ نہیں پیتا‘کہا جاتا ہے لے اچھا میری قسم ایک کش تو لے جب وہ نہ چاہتے ایک کش لیتا ہے تو پھر اس کے بعد اس کو عادت سی پڑ جاتی ہے پھر وہ ماحول سے لی ہوئی چیز ماحول کو واپس کرنا شروع کرتا ہے اس کو دیکھ کر اس کے چھوٹے بہن بھائی اور دیگر عزیز و اقرباء سگریٹ نوشی شروع کر دیتے ہیں‘وہ کیا شعر ہے جو اس موضوع پر اکثر مجھے یاد آتا ہے ”دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں۔ جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں“ہمارے ہاں تو ہر طبقہ میں سے لوگ سگریٹ نوشی کے مرتکب ہوتے ہیں بلکہ ساتھ پان بھی کھاتے ہیں اور گٹکا بھی یوز کرتے ہیں‘اسکے علاوہ سگریٹ ہی میں ڈال کر اور بہت نشے اختیار کئے جاتے ہیں جن کی تعداد او راقسام
کی طرف جانا حماقت ہوگی‘ یہاں تو اور نشے ایسے نکل آئے ہیں کہ توبہ توبہ۔نشوں کی ایک مصنوعی پُر بہار دنیا ہے جس میں کھوکر بندہ اپنے آپ کو خلاؤں میں اڑتا ہوا محسوس کرتا ہے‘ اس باب میں بہت تفصیل ہے جن کا ذکر کرنا گویا ان کو جو نشہ نہیں کرتے یا صرف سگریٹ پیتے ہیں نشوں کی لت کی طرف رغبت دلانا ہے‘بعض لوگ سگریٹ کو بطورفیشن پیتے ہیں مگر ایک بار جب یہ چسکا لگ جائے تو پھرمنہ سے یہ عادت چھٹتی نہیں ہے‘بہت خوش قسمت ہیں وہ جو کسی نہ کسی بہانے سے سگریٹ چھوڑ دیتے ہیں مگر اکثر نے جب اس کا مزہ چکھا ہے تو پھر وہ گئے اتنے گئے کہ کام سے بھی گئے اور جان سے بھی گئے۔ڈاکٹر سے وعدہ کر کے نکلتے ہیں کہ سگریٹ نہیں پیئں گے مگر ”وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہوگیا‘ہفتہ دس دن تک سگریٹ چھوڑے رہیں گے مگر مہینہ کے بعد جب کسی کو سگریٹ پیتا ہوئے دیکھیں گے تو ڈھیٹ بن کر اس سے سگریٹ مانگیں گے‘ اتنا تسلیم ہے کہ کافی لوگوں نے سگریٹ چھوڑدیا ہے یہ آگاہی کی وجہ سے ہے جو گاہے گاہے منعقد کی جاتی ہے‘ہمارے ہاں توبعض استاد بھی سگریٹ سے دل لبھاتے ہیں خواہ سکول کے ہوں یا کالج یا یونیورسٹی کے ہوں‘یہ کوئی اچھی بات تو نہیں‘ زنانہ تعلیمی اداروں میں بھی یہ وباء پہنچی ہوئی ہے‘بس یہاں تک رہے میرا منہ نہ ہی کھلے تو بہتر ہوگا کہ اس کارِ بد میں بہت سے پردہ نشینوں کے نام بھی آنے لگیں گے۔