سہ فریقی میٹنگ ایک اچھی پیش رفت

حال ہی میں چین پاکستان اور افغانستان کے وزرا ء خارجہ کی اسلام آباد میں ہونے والی میٹنگ میں اس خطے میں دہشتگردی کے خلاف جس مشترکہ عزم  کا اعادہ کیا گیا ہے وہ ایک اچھی پیش رفت ہے۔ افغانستان نے ایک ماہ کا ٹائم یا بالفاظ دیگر مہلت مانگی ہے جس میں افغان وزیر خارجہ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ افغانستان کی سر زمین سے ان  خفیہ مقامات کا خاتمہ کر دیں گے کہ جن کو دہشت گرد استعمال کر کے پاکستان کے اندر دہشتگردی کی کاروائیوں کی پلاننگ کرتے ہیں۔ خدا کرے کہ افغانستان اپنے اس وعدے کو اب کی دفعہ عملی جامہ پہنائے کیونکہ اس ضمن میں اس کے ماضی میں کئے جانے والے وعدوں پر عمل درآمد کا ٹریک ریکارڈ اطمینان بخش نہیں ہے۔ اسلام آباد میں ہونے والی اس سہہ فریقی کانفرنس اس خطے میں امن کی بحالی کے واسطے جس حکمت عملی کا تعین کیا گیا ہے اس پر عمل درآمد کے شیڈول کی مانیٹرنگ بھی بڑی ضروری ہے اور بہترہو گا کہ کہ ان تینوں ممالک کی  وزارت خارجہ دفاع اور داخلہ کے سینئر حکام کی سطح پر ہر تین ماہ  بعد اسلام آباد کابل اور یا پھر بیجنگ میں ان کے مشترکہ اجلاس ہوں جن میں اس بات کا باقاعدگی سے جائزہ لیا جاے کہ جو فیصلے مندرجہ بالا سہہ فریقی میٹنگ میں کئے گے ہیں ان پر کہاں تک عمل درآمد ہوا ہے۔یہ امر خوش آئند ہے کہ افغانستان بھی اب چین کے روڈ اینڈ بیلٹ  کے منصوبے کا ایک حصہ ہوگا یقینا اس منصوبے سے افغانستان کی معاشی پسماندگی ختم کرنے میں افغانستان کی حکومت کو بڑی مدد ملے گی۔دیکھا جائے تو افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے جتنی کوششیں پاکستان نے کی ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ تاہم اسکے مقابلے میں وہاں سے اس خیر سگالی کا مظاہرہ دیکھنے میں نہیں آیا، اب افغان وزیر خارجہ نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ حوصلہ افزاء ہیں اور امید ہے کہ افغان حکومت اپنے وعدے کو عملی شکل دے کر اس معاملے میں اہم اقدامات کریگی۔اگر سی پیک میں افغانستان کی شمولیت کو عملی جامہ پہنایا جائے اور اس سلسلے میں افغانستان وسطیٰ ایشیا کے ساتھ اس منصوبے کو جوڑنے میں اپنا کردار ادا کرے تو یہ پورے خطے کے لئے ایک انقلابی قدم ثابت ہوگاادھر ایرانی صدر کا یہ موقف سو فیصد درست ہے کہ ایران کے سعودیہ سے تعلقات کی بحالی سے خطے میں بڑی تبدیلیاں رونما ہوں گی، ان کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ ان کے اصل دشمن امریکہ اور اسرائیل ہیں اور یہ کہ سعودی عرب کو ایران یا ایران کو سعودی عرب کا دشمن قرار دینا ناقابل قبول ہے۔ترکیہ میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات 14 مئی کو ہو رہے ہیں اگلے روز استنبول میں ترک صدر ایردوآن کے انتخابی جلسے میں 17 لاکھ افراد کی شرکت سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے مدمقابل جو تین امیدوار الیکشن میں کھڑے ہیں ان میں سے کسی کے بھی جیتنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ادھر برطانیہ کے بادشاہ کی تاجپوشی پر جو بارہ کروڑ ڈالر کا خرچہ آیا ہے اس پر برطانیہ کے اندر بڑی لے دے ہو رہی ہے کئی لوگوں کے خیال میں برطانیہ اس وقت سخت معاشی بحران کا شکار ہے اگر شاہی محل والوں نے کنگ چارلس کی تاجپوشی اتنی شان و شوکت سے ہی کرنا تھی تو شاہی خاندان کے افراد کو اپنی جیب سے اس کا اہتمام کرنا چاہئے تھا۔