ایسی خبریں آرہی ہیں کہ انسان چکرا جا تا ہے ایک عام شہری کا دما غ گھوم جا تا ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟یہ خبر گردش کررہی ہے کہ پا کستانی طلبہ کے والدین اولیول (میٹرک) کے امتحا نات میں بچوں اور بچیوں کو بٹھا نے کے لئے 21ارب روپیہ غیر ملکی یو نیو رسٹیوں کو ادا کر تے ہیں یہ امتحا نات سال میں دو بار ہو تے ہیں جی آر ای، آئی جی ایس جی وغیرہ کے امتحا نات اس کے علا وہ ہیں اے لیول (ایف ایس سی) کے امتحانات کی فیسوں کو ملا کر ہر سال کم از کم 80ارب روپیہ ملک سے ڈالر میں تبدیل ہو کر با ہر جا تا ہے گویا اس ہفتے کے کرنسی ریٹ کے حساب سے کم و بیش 29کروڑ ڈالر کی رقم بنتی ہے دوسری طرف قومی اسمبلی سکرٹریٹ سے خبر آئی ہے کہ پا رلیمنٹ نے پا کستان میں کیمبرج کا نصاب پڑ ھا نے کی منظوری دی ہے ان خبروں کو یکجا کر کے اس کا ملغوبہ سامنے رکھیں تو بھیا نک
تصویر سامنے آتی ہے اس تصویرپر غور کرنے سے جو نتیجہ سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ آزادی کے75سال گذر گئے ہماری قوم نے 1972تک کوئی تعلیمی پا لیسی نہیں بنا ئی 1972سے لیکر 2009تک 5تعلیمی پا لیسیاں بن گئیں گر کسی بھی تعلیمی پا لیسی نے قوم کو علم و ادب اور تحقیق و تدقیق کا راستہ نہیں دکھا یا، نصاب میں الجھن ہی رہی،تعلیم و تر بیت کے نظام میں کوئی بہتری نظر نہیں آئی اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ امتحا نی نظا م میں اصلا ح کا کوئی پہلو کبھی دیکھنے میں نہیں آیا یہ 1985ء کا واقعہ ہے چترال کے ایک نجی سکول کے لئے بر طا نیہ سے رضا کار ما ہر تعلیم رچرڈ ایلی سن کو بونی بھیجا گیا انہوں نے اپنی آمد کے ایک سال بعد ولینٹئر سروسز اور سیز (VSO) کو رپورٹ بھیجی، رپورٹ کی تمہید میں انہوں نے ہمارے نظام تعلیم کا خا کہ پیش کرتے ہوئے لکھا کہ پا کستان میں گیارہ قسم کے الگ الگ سسٹم کا م کر تے ہیں۔اس طرح کچھ ادارے بر طانوی یو نیورسٹیوں سے اولیول اور اے لیول والے سر ٹیفیکیٹ بھی دلواتے ہیں اگر کوئی دانشور باقاعدہ تحقیق کر ے تو 2023میں مزید درجہ بندی بھی ہو سکتی ہے مو جو دہ صورت حال میں ایک تلخ
حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تعلیم کے شعبے میں خاطر خواہ کارکردگی نہیں دکھائی اور دنیا بھر میں ہمارے امتحانی نظام کی ساکھ اس سطح پر نہیں جو ہمارے طلبہ کے بیرون ملک تعلیم کیلئے ضروری ہے۔اس حوالے سے ایک تجربہ حال ہی میں کیا گیا ہے اورآغا یونیورسٹی کے امتحانی نظام سے استفادہ کیا گیا جو کامیا بی سے ہمکنار ہوا ہے اس سسٹم کے تحت انٹر میڈیٹ پا س کر نے والے طلبہ کو دنیا بھر کی یونیورسٹیوں میں سر ٹیفیکیٹ کی بنیاد پر داخلے ملتے ہیں اس تجربے کو سامنے رکھ کر پا کستان کی چار دیگر یو نیور سٹیوں کے ساتھ با مقصدمذاکرات اور سمجھوتہ کر کے اگر تعلیمی نظا م آئی بے اے کر اچی، لمز لا ہور، نسٹ اسلا م اباد، غلا م اسحاق خا ن یو نیورسٹی خیبر پختونخوا اور آغا خا ن یو نیورسٹی کراچی کو حوالہ کیا جا ئے تو کمرہ جما عت کے اندر تعلیم و تدریس اور امتحا نات میں شفا فیت کا اعلیٰ معیار قائم ہو گا۔