ترکیہ میں چودہ مئی کو ہونے والے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات یہ فیصلہ کریں گے کہ ملک کا نیا سربراہ کون ہوگا، حکومت کی ترجیحات کیا ہوں گی اور اس کی معاشی پالیسیاں اور خارجہ پالیسی کی شکل کیا ہوگی۔موجودہ صدر رجب طیب اردوغان کو ایک سابق ملازم اور حزب اختلاف کے چھ جماعتی اتحاد کے حمایت یافتہ کمال قلیچ دار اوغلو کی صورت میں ایک سخت حریف کا سامنا ہے۔انتخابات میں ایک ہفتے سے کم وقت رہ گیا ہے۔ صدر اردوغان 20سال سے زیادہ عرصے سے اقتدار میں ہیں اور انتخابی جائزوں کے مطابق اردوغان کو اپنے اس انتخابی مقابلے میں اب تک کا سب سے سخت مقابلہ درپیش ہے۔ کل اردوغان نے سترہ لاکھ حامیوں کا ایک بڑا جلسہ کیا ہے۔ تازہ ترین رائے شماری میں داراوغلو کو اردوغان سے آگے دکھایا گیا ہے جن کی مقبولیت ملک میں بڑھتی ہوء مہنگائی کی وجہ سے متاثر ہوئی ہے۔ تاہم اردوغان ابھی مقابلے میں ہیں اور صدارتی انتخاب کا دوسرا مرحلہ ممکنہ طور پر اردوغان اور داراوغلو کے درمیان ہی ہوگا۔حزب اختلاف اور ناقدین کے خیال میں یہ انتخابات اردوغان کے دو دہائیوں سے جاری اقتدار ختم کرنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اپوزیشن اتحاد اور ان کے مشترکہ امیدوار داراوغلو نے یہ امکان بڑھا دیا ہے۔
انتخابات میں جو بھی اتحاد کرد رائے دہندگان، جو کل رائے دہندگان کا 15 فیصد ہیں، حمایت حاصل کرے گا وہی کامیاب ہوسکے گا۔ کرد نواز پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی حزب اختلاف کے اہم اتحاد کا حصہ نہیں ہے لیکن حالیہ برسوں میں اپنے ارکان کی گرفتاریوں کے بعد اردوغان کی شدید مخالفت کرتی ہے۔چودہ مئی کو اگر پہلے مرحلے میں کسی نے درکار اکیاون فیصد ووٹ نہیں لیے تو پھر اٹھائیس مئی کو صدارتی انتخاب کا دوسرا مرحلہ منعقد ہوگا جس میں پہلے مرحلے کے اوّل و دوم آنے والے امیدواروں میں دوبارہ مقابلہ ہوگا۔یہ انتخاب جنوب مشرقی ترکی میں آنے والے زلزلے کے تین ماہ بعد ہو رہا ہے جس میں 50,000 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔صدر طیب اردوغان 2003 سے اقتدار میں ہیں اور میڈیا اور حکومتی ڈھانچے پر مکمل کنٹرول حاصل کر چکے ہیں۔ ان کے دور میں ترکیہ نے مشرق وسطیٰ اور اس سے باہر فوجی طاقت اور بڑھائی ہے، شام میں چار حملے شروع کیے، عراق کے اندر کرد عسکریت پسندوں کے خلاف کاروائی کی اور لیبیا اور آذربائیجان کو فوجی مدد بھیجی ہے۔ مغربی ممالک اور نیٹو کے معاملے میں بھی اپنے قومی وقار کا تحفظ کیا۔ انہوں نے امریکی مخالفت کے باوجود روس سے فضائی دفاعی نظام خریدا اور روسی صدر ولادی میر پیوٹن سے قربت بڑھائی جس پر نیٹو ممالک ناراض ہوئے مگر وہ پالیسی پر ڈٹے رہے۔ انہوں نے سویڈن اور فن لینڈ کی جانب سے نیٹو کی رکنیت کی درخواستوں پر اعتراضات اٹھائے حتی کہ ان دونوں کو ترکیہ کی بات ماننا پڑی۔ انہوں نے یوکرین کی گندم کی برآمدات جاری رکھنے کے لئے ایک معاہدے میں بھی ثالثی کی اور یوکرین جنگ ختم کرنے کیلئے بھی کوششیں کررہے ہیں۔ تاہم اس کے ساتھ ساتھ اردوغان کے دور میں افراط زر کی شرح بہت بڑھ چکی۔ پچھلے سال افراط زر کی شرح 24 سال کی بلند ترین سطح 85 فیصد تک پہنچ گئی اور گزشتہ دہائی کے دوران ترکیہ کی کرنسی لیرا ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر کے دسویں حصے پر آ گیا۔حزب اختلاف کے چھ جماعتی اتحاد کے حمایت یافتہ کمال قلیچ داراوغلو کا کہنا ہے کہ اگر وہ جیت گئے تو وہ مرکزی بینک کی
آزادی بحال کرنے اور اردوغان کی غیر روایتی اقتصادی پالیسیوں کو تبدیل کریں گے۔ وہ سابقہ پارلیمانی نظام کو بحال اور صدر کے اختیارات کم کر دیں گے۔ ریاست کے سربراہ کے ویٹو قانون سازی کے حق کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے دو سال کے اندر مہنگائی کو 10 فیصد سے نیچے لانے اور شامی مہاجرین کو رضاکارانہ طور پر گھر بھیجنے کا عہد کیا ہے۔ انہوں نے اختیارات کی عدم مرکزیت، جمہوریت کے بلند معیار، اور پارلیمانی حکومت کی تنظیم نو کا وعدہ کیا ہے۔اس کے علاوہ وہ مغربی اتحادیوں اور امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کا عزم رکھتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اپوزیشن کی جانب سے جن پالیسیوں کا وعدہ کیا گیا ہے وہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو فروغ دے سکتی ہیں۔ تاہم یہ بات بھی کہ جا رہی ہے کہ اتحاد میں شامل پارٹیوں کو ایک ایجنڈے اور پالیسیوں پر متفق کرنا اور یوں ہموار حکومت چلانا آسان نہیں ہوگا۔ترکیہ نے رجب طیب اردوغان کی قیادت میں جو کامیابیاں حاصل کی ہے ان کو دیکھتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ سخت مقابلے کے باوجود ترک صدر کو دوبارہ کامیابی مل سکتی ہے جس کے خطے کی سیاست پر دور رس اثرات مرتب ہونگے اور خاص طور پر امریکہ ترک تعلقات اس صورت میں متاثر ہو سکتے ہیں۔