بھارتی شہرگوا میں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ اجلاس میں پاکستانی وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کی شرکت چونکہ بھارتی حلقوں کی توقعات کے برعکس تھی اس لئے بھارت نہ صرف اس اہم علاقائی کانفرنس میں پاکستانی وزیر خارجہ کی شرکت اور ان کے لب ولہجے سے پریشان نظر آئے بلکہ بھارتی وزیر خارجہ نے اس موقع پر تمام تر سفارتی آداب کوبالائے طاق رکھتے ہوئے ایک غیرسیاسی اقتصادی فورم کے ماحول کو اپنی عادت اور ظرف کے مطابق گندا کرنے میں بھی کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی۔بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر کو پاکستان پردہشت گردی کے فروغ کے سنگین اور بلاجواز الزام عائد کرتے ہوئے نہ توپاکستان میں دہشت گردی کے نیٹ ورک چلانے والے بھارتی نیوی کے افسر کلبھوشن یادیو کی کارستانیاں یا درہیں اور نہ ہی پاکستان پر الزامات عائد کرتے ہوئے چار سال سے مقبوضہ کشمیر کو دنیا کا سب سے بڑ اعقوبت خانہ بنانے کے سیاہ بھارتی اقدامات کا کچھ خیال آیا‘ جے شنکر نے اپنی جھنجلاہٹ چھپانے کے لئے جہاں بلاول بھٹو کے ساتھ ملاقات کرناگوارہ نہیں کیا وہاں مشرقی آداب میزبانی سے یکسو انحراف کرتے ہوئے ان سے مصافحہ بھی کچھ ایسے انداز میں کیا جس سے ان کی رعونت کے ساتھ ساتھ ان کے دل میں چھپے چورکو بھی ہرکسی نے دیکھ اور محسوس کیا۔بلاول بھٹوزرداری کی بھارت یاترا اور ایس سی او اجلا س میں دھڑلے سے شرکت سے جہاں دنیا پرپاکستان کا موقف واضح ہو اہے وہاں اس حکمت عملی سے بھارت کا مکروہ اور متعصبانہ چہرہ بھی دنیا پر آشکارہ ہواہے بالفاظ دیگر بلاول نے اس کانفرنس میں شریک ہوکربالکل صحیح کام کیاہے جس سے دنیاپر یہ بات واضح کرنے میں مدد ملی ہے کہ پاکستان اپنے
پڑوسی ملک کے ساتھ اس کی زیادتیوں اور کشمیر میں ڈھائے جانے والے مظالم کے باوجود نہ صرف بات چیت کے لئے تیار ہے بلکہ وہ بھارت کی پاکستان کو دنیا سے الگ تھلگ کرنے کے مذموم عزائم کو بھانپتا بھی ہے اور وہ ان منفی عزائم کو ناکام بنانے کاگر بھی جانتا ہے۔مبصرین کاخیال ہے کہ اس بات کا امکان بہت کم تھا کہ پاکستان اور بھارت دونوں دوطرفہ مسائل بالخصوص کشمیر پر اپنے اپنے موقف سے دستبردار ہوں گے لیکن زیادہ پر امید مبصرین یہ امید کر رہے تھے کہ دونوں ریاستوں کے اعلیٰ سفارت کاروں کے درمیان بات چیت کم از کم برف کو پگھلانے کا باعث بنے گی اور اس سے مستقبل میں بات چیت کی راہ ہموار ہو گی حالانکہ ایساکچھ بھی نہیں ہوا کیونکہ بھارت میں برسراقتدار ہندوانتہا پسند ٹولے نے پاکستان کے خلاف جو سٹانس اپنا رکھا ہے یہی وہ چورن ہے جسے بیچ کر مودی سرکار بھارتی عوام کو دوسری بار بے وقوف بنانے میں کامیاب ہوئی ہے لہٰذا جن کا خیال ہے کہ مودی سرکار اپنے اس روایتی پاکستان دشمن پالیسی سے پیچھے ہٹنے پرتیار ہوجائے گی وہ غلط فہمی کا شکار ہیں۔بھارت اس حقیقت کو بخوبی سمجھتاہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم باہمی تنازعات کو حل کرنے والی تنظیم نہیں ہے لیکن اس فورم پر ہندوستانی
وزیر خارجہ ایس جے شنکر کی جانب سے سرحد پار دہشت گردی پر قابو پانے کی ضرورت جیسے غیر سفارتی ریمارکس کو نہ تو دیگر رکن ممالک نے پسند کیاہے اور نہ ہی ایس سی او کے بانی چین کویہ طرز عمل پسند آیاہے شاید یہی وجہ ہے کہ چینی وزیرخارجہ نے اس فورم پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی بے پناہ قربانیوں اور کامیابیوں کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ اس حوالے سے پاکستان کی تعریف کرتے ہوئے پاکستان کو تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی۔بلاول بھٹو زرداری نے اس اہم فورم پر بھارتی سرزمین پربیٹھ کرروس اور چین سمیت اپنے دیگرہم منصبوں سے دو طرفہ ملاقاتوں کے ذریعے بھی اگر ایک طرف بھارتی زخموں پر خوب نمک پاشی کی تودوسری جانب وہ مسٹر جے شنکر سے ملاقات کی بھیک نہ مانگ کر بھی پاکستان کا سر بلند کرنے میں سرخرو ہوئے۔پاکستانی وزیر خارجہ اس حقیقت کو دہرانے میں بھی درست ثابت ہوئے کہ دہشت گردی کو سفارتی پوائنٹ سکورنگ کیلئے بطور ہتھیار استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ایس سی اور فورم پر تقریر کے علاوہ بھارتی وزیر خارجہ کے پاکستان اور اس کے اعلیٰ سفارت کار کے حوالے سے میڈیا کو دیئے گئے تبصروں کوبھی غیر جانبدار ذرائع نے پزیرائی نہیں بخشی، ان کے طرز عمل اور گفتگو سے یوں لگ رہاتھا جیسے مسٹر جے شنکر ہندوستانی حکومت کی بجائے انتہاپسند بی جے پی کے ترجمان کے طور پر بول رہے تھے۔ چار سال سے سرد مہری کے شکار دوطرفہ تعلقات کو بہتر کرنے کایہ ایک اچھااور فطری موقع تھا جسے بھارت نے اپنی روایتی ہٹ دھرمی سے ضائع کردیا اور ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ بھارت نہ صرف خطے کے امن کیلئے خطرہ ہے بلکہ بین الاقوامی امن بھی اس کے ہاتھوں خطرے میں ہے۔