ایک لکھاری کیلئے عوامی رائے کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے جوں جوں اس خالی کھوپڑی میں یہ بات سمجھ آنے لگی تو اپنا کیا ہواغلط نظر آیا‘سوچاسب اپنا کیا دھرا ہے‘کیونکہ عوام کی طرف سے رائے کا آنا ضروری ہے‘ چاہنے والوں کی آرا تو جیسے آئینہ ہے جس میں رائٹر کو خود اپنے چہرے کے داغ نظر آتے ہیں جن کو وہ دور کرتا ہے‘کیونکہ انسان چوبیس گھنٹے دوسروں کو دیکھتا ہے اپنے آپ کو تو دیکھ ہی نہیں سکتا‘ سواپنے آپ میں کمیاں اور برائیاں کیسے نظر آئیں گی‘سو عوام کاتحریر پڑھنااور اپنی رائے کا اظہار کرنا بہت ضروری ہے‘میرا کالم وٹس ایپ اور فیس بک پر آتا ہے تو اس وقت اور پھر کسی مجلس میں شرکت کرنے کاموقع ہو تو مجھے میرے کالم کے حساب سے تنقید کا نشانہ بھی بنایاجاتا ہے اور تعریف کے پھول بھی پیش کئے جاتے ہیں‘ اگر فیڈ بیک نہ ملے توکالم کارکچھ بھی نہیں‘ فیڈ بیک کا اپناچسکا ہے‘ایک بار یہ شیرہ ہونٹوں تک پہنچ جائے توخواہش ہوتی ہے جو کالم لکھا اس پر رائے اگر دستیاب ہو تو بہت اچھا ہو‘اس فیڈ بیک کے نہ ہونے سے بعض رائٹر وں نے لکھنا چھوڑ دیا ہے‘پوچھاکیوں تو کہا یار کوئی فیڈ بیک ہی نہیں‘ میں نے کہا تھوڑا صبر سے کام لیں لکھنے لکھانے کا سلسلہ جاری رکھیں ابھی تو آپ کو مہینہ بھر نہیں ہوا کہ آپ نے لکھنا شروع کیا ہے‘ہمیں دیکھوبائیس سال سے کالم کاری میں ملوث ہیں‘صفحے کالے کر رہے ہیں‘ہر چیز کا ایک وقت ہوتا ہے‘اسی طرح پبلک کا آپ کے کالم پر تبصرہ کرنے کابھی ایک ٹائم ہے‘ آپ مایوس نہ ہوں‘ پھر ایسا ہی ہوا وہ آج کل لکھ رہے ہیں اور بڑے دبنگ انداز سے لکھتے ہیں کہ ہم بھی ان کے شاگرد ہیں‘حالانکہ انھوں نے ہم سے بعد میں لکھا مگر ہم سیکھتے بھی ان کی انشائیہ نگاری والے کالموں سے ہیں‘ یوں کہ کالم میں کس طرح بات سے بات خود بخود نکلتی ہے اور پھر وہ کون سا موقع ہوتا ہے جب جان بوجھ کربات سے بات نکالی جاتی ہے‘پھر ہماری تواس وقت یہ صورت ہے کہ ہماری ذہنی خوراک اور تازگی اور طاقت و توانائی پبلک کی رائے ہے‘میں لکھتا تھا اور بہت مشکل لکھتا تھااور ہر ایک کے لئے نہیں خاص لوگوں کے لئے لکھتا تھا‘مگر معلوم ہوا کہ یہ عوامی ذائقہ کی چیز ہے‘کیونکہ ہمارے بعض خاص لوگ تو اخبار کی موٹی موٹی خبریں دیکھ کر اخبار کو جلدی ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں‘میر تقی میر کا شعر ہے ”شعر میرے ہیں گو خواص پسند‘گفتگو پر مجھے عوام سے ہے“‘ باواجی آسان لکھنا بہت مشکل ہے‘ اس کے لئے زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے‘کیونکہ جن کتابوں کو پڑھ کر سیکھا ہوتا ہے وہ عام طور سے اپنی جدا قسم کی زبان میں مشکل انداز سے تحریر کی گئی ہوتی ہیں‘پھر وہ مشکل الفاظ ذہن میں بیٹھ جاتے ہیں بلکہ دھنس جاتے ہیں‘ پھر ان سے تا عمر پیچھا چھڑانا بہت مشکل ہو تاہے‘پھر بات ہی ایسی ہو کہ مشکل الفاظ کے ذریعے بیان ہو سکتی ہو تو بندہ اس وقت کیسے آسان انداز اختیار کرے‘ہم جب بعد میں اس بات کے قائل ہوئے کہ کالم تو عوامی چیز ہے تو ہم نے آسان لکھا او رکوشش کرکے اب بھی آسان راستہ اختیار کر رکھا ہے‘ہمارے ایک دوست بہت آسان لکھتے ہیں‘ہم مشکل پسندی کے زمانے میں ان پر دل ہی دل میں اعتراض کرتے تھے کہ وہ بڑے رائٹر ہو کر بچوں کے سے انداز میں کیوں لکھتے ہیں‘وہ اب بھی عرصہ ئ دراز سے قلم کے گھوڑے کی باگیں تھامے ہوئے رواں دواں ہیں‘ہم قائل ہوگئے کہ وہ تو جان بوجھ کر آسان لکھتے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو سمجھ آئے‘مگر کیا کریں اس وقت کہ جب ایک بات ہی مشکل ہو اور اس کے لئے کتابوں میں مشکل الفاظ ہی دستیاب ہوں تو بندہ مشکل میں پھنس جاتا ہے کہ اب اس کو آسا ن کر کے کیسے لکھیں۔
ویسے دیکھا جائے تو زبان وہی قبول عام ہوتی ہے جو سلیس اور آسان فہم ہو دوسرے معنوں میں جو عام لوگوں کے دل و دماغ میں اتر جائے۔
دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں‘ طاقت پرواز مگر رکھتی ہے