دوسری جنگ عظیم کے اختتام پر ایک حکم نافذ کیا گیا جو دو عالمی طاقتوں (سپر پاورز) امریکہ اور سوویت یونین (یو ایس ایس آر) کے غلبے سے متعلق تھا۔ اِسی کے نتیجے میں سرد جنگ کا آغاز ہوا اور اگرچہ یہ واضح کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ طاقتور ممالک اپنی حدود سے باہر کس حد تک جا سکتے ہیں اور اِن کے لئے سماجی اور سیاسی فلسفے کیا ہوں گے لیکن طاقت بہرحال طاقت ہوتی ہے۔ وہی ہوا کہ جس کا اندیشہ تھا کہ جغرافیائی سیاست کی گئی اور معاشی دنیا سرمایہ دارانہ اور سوشلسٹ فرقوں میں بٹ کر رہ گئی۔ مغرب کا نصف کرہ یعنی نیٹو‘ یورپی یونین اور امریکی اتحادیوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تجارت شروع کی۔ یوں عالمی بینک اور آئی ایم ایف وجود میں آئے جو امریکہ کے دنیا پر معاشی حکمرانی (تسلط) قائم کرنے کو ممکن بناتے ہیں۔ اِس مالیاتی نظام کو عالمی حکمرانی اور عالمی غلامی میں بھی دیکھا جا سکتا ہے پھر جیسے جیسے ’یو ایس ایس آر‘ کمزور اور تحلیل ہوا ویسے ویسے چین اُبھر کر سامنے آتا گیا اور ظاہر ہے کہ عالمی سیاست میں ممالک کا یہ تبدیلی (عروج و زوال) اتفاقی نہیں بلکہ اِس کے پیچھے حکمت عملیوں کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا عمل دخل ہے۔ خاص نکتہ یہ ہے کہ امریکہ اور امریکہ مخالف ممالک نے ابتدائی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کی حمایت کی جس کی تخلیق ’بریٹن ووڈز‘ نے کی تھی تاہم بعد میں اِسے ’ڈبلیو ٹی او‘ کے ذریعہ چلایا گیا اور امریکی ڈالر بین الاقوامی سطح پر مقبول بنا دیا گیا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب فرانس میں فوکویاما نے محسوس کیا کہ ”تاریخ اختتام پذیر ہو چکی ہے“ کیونکہ امریکہ کی طرح چین اور روس نے بھی عالمی مالیاتی نظام اپنا لیا تھا لیکن اگر چین ایسا نہ
کرتا تو وہ ’بے لگام ترقی‘ نہ کر پاتا۔ چین نے بڑی ہی ہوشیاری (منصوبہ بندی) سے امریکہ کی منڈیوں تک رسائی حاصل کی اور اپنی برآمدات کو بڑھاتا چلا گیا کہ آج ’میڈ اِن چائنا‘ ایک معیار بن چکا ہے اور چین کی معیشت معمولی نہیں رہی بلکہ یہ دنیا کی سب سے مضبوط معیشت ہے جبکہ روس کے وسائل اور توجہ یوکرائن جنگ میں خرچ ہونے کے باوجود اُس نے اپنا ایک ہاتھ چین کو تھما رکھا ہے۔ چین کا عروج امریکی ڈالر کی غیر متنازعہ بالادستی ختم کرنے کے لئے بھی ہے۔ امریکی ڈالر بین الاقوامی تجارت میں کمانڈنگ کرنسی ہے لیکن اس پر عالمی انحصار تبدیل ہونے کا خطرہ نمایاں ہے کیونکہ ڈالر کو کساد نہیں تو جمود کے بڑھتے ہوئے خطرے کی وجہ سے یورپی معیشتوں میں بڑھتے ہوئے بوجھ کا سامنا ہے یوکرین میں غیر ضروری طور پر طویل جنگ‘ جسے مغربی دنیا کی حمایت حاصل ہے اور امریکہ و مغربی ممالک روس کو سبق سکھانے کے لئے یوکرائن کی مالی اعانت فراہم کر رہے ہیں تو اِس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی اجناس کی قلت اور تیل و گیس کی فراہمی میں خلل پیدا ہوا ہے۔ ایک طرف جنگ کے آغاز کی وجہ سے تو دوسری طرف امریکہ اور اِس کے اتحادی جنگ کی حمایت کر کے معاشی مشکلات کے دور سے گزر رہے ہیں یعنی مغربی دنیا بغیر کسی حل کے خود ساختہ بحرانوں کے دہانے تک پہنچ چکی ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب چین اور روس کی حمایت یافتہ تجارتی کرنسیاں زیرگردش ہیں۔ یہاں تک کہ بھارت‘ جو امریکی بلاک کا حصہ ہے لیکن وہ بھارتی روپے میں روس کے ساتھ تجارت کر رہا ہے۔ دوسری طرف کرپٹو کرنسیاں بھی امریکہ کی گرفت میں نہیں رہیں۔ امریکہ جس ایک خطرے کو نظرانداز کر رہا ہے وہ مالیاتی حملہ ہے اور اس تیزی سے پھیلے ہوئے حملے کا مقابلہ کرنے کے لئے امریکہ کے پاس خاطرخواہ ہتھیار نہیں ہیں۔