ترکیہ میں چودہ مئی کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے متوقع نتائج پر روس اور مغربی ممالک کی اپنی اپنی توقعات اور خدشات ہیں‘ان انتخابات کے ذریعے ترکیہ میں صدر اور ارکان پارلیمان منتخب ہو رہے ہیں جن کی ترجیحات اور پالیسی فیصلے یورپ، مشرق وسطیٰ اور دنیا بھر میں مضمرات کے حامل ہوں گے‘روس موجودہ صدر رجب طیب اردوغان کا حامی ہے جب کہ مغربی ممالک درپردہ اردوغان کے حریف کمال قلیج داراوغلو کی حمایت کررہے پیں؛ اگر اردوغان جیت جاتے ہیں تو یہ روس کیلئے ایک اچھی خبر ہوگی لیکن چھ جماعتی اتحاد کے امیدوار داراوغلو کا انتخاب ضروری نہیں کہ ترکیہ کو آسانی سے دوبارہ مغرب کی طرف لے آئے؛اردوغان جب 2003میں برسر اقتدارآئے تھے تو وہ مغرب نواز خیالات کیلئے مشہور تھے مگر حالیہ برسوں میں انہوں نے خود کو منوانے اور مغربی ممالک کے ساتھ مقابلے کی پالیسی اختیار کی اور اپنی دوٹوک خارجہ پالیسی سے عالمی سطح پر ترکیہ کی ساکھ میں اضافہ کیا‘اس بات کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ ترکیہ میں داراوغلو کی حکومت قائم ہوگئی تو ترکیہ سویڈن اور فن لینڈ کی نیٹو میں شمولیت کی مخالفت چھوڑ دے گا‘حالیہ انتخابی مہم میں تیزی سے جاری ہے‘ خارجہ پالیسی کے بجائے معاشی مسائل جیسے افراط زر اور کرنسی بحران، جن کی وجہ سے ترکوں کا معیار زندگی نیچے چلا گیا، حاوی رہے ہیں۔ خارجہ پالیسی ترک رائے دہندگان کیلئے کوئی اہم معاملہ ہو یا نہ ہو مگر مغربی ممالک کیلئے یہ انتخابات انتہائی اہم ہیں اور وہ بڑی دلچسپی اور توجہ کے ساتھ اس کو دیکھ رہے ہیں‘اگر اردوغان منتخب ہوگئے تو قوی امکان یہی ہے کہ وہ روس اور چین کی طرف جھکاؤ اور مغربی ممالک سے کشمکش کی اپنی موجودہ پالیسی برقرار رکھیں گے‘یاد رہے ترکیہ اور روس کے مابین زار روس اور سلطنت عثمانیہ کے دور سے اختلافات رہے ہیں اور 2015میں ترکیہ کی جانب سے شام میں ایک روسی جہاز کو مارگرانے پر تعلقات کافی کشیدہ ہوئے لیکن اردوغان کی طرف سے رسمی معافی کے بعد جلد روس نے ترکیہ پر جوابی پابندیاں ہٹا دیں۔ اس کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات گہرے ہوتے گئے باجود یہ کہ روس اور ترکیہ شام، لیبیا اور نگورنوکاراباخ میں متحارب فریقین کے حامی و معاون رہے ہیں؛ روس یوکرین لڑائی شروع ہوئی تو مغربی ممالک نے روس کے ساتھ تجارت پر پابندیاں لگوا دیں مگر چین اور ترکیہ نے روس کے ساتھ تجارت بڑھادی۔ پھر ترکیہ اور چین نے روس اور یوکرین میں تصفیہ کیلئے مذاکرات کروانا شروع کردئیے۔روس بطور خاص اردوغان کی کامیابی کا منتظر ہے اور ان کی کامیابی کو اپنے اتحادی کی کامیابی تصور کرے گا۔ اس نے انتخابات میں اردوغان کی کھلی حمایت کی ہے‘خارجہ پالیسی کے ماہرین مغربی ممالک کو مشورہ دیتے ہیں کہ انہیں ترکیہ انتخابی مہم کے دوران داراوغلو کی حمایت یا انتخابی نتائج اس کے حق میں تبدیل کرنے کی کوشش بالکل نہیں کرنی چاہیے کیوں کہ یہ اسے سخت نقصان پہنچا دے گی‘ دراصل ترک عوام اپنے ملکی امور میں بیرونی مداخلت بالکل پسند نہیں کرتے، امریکہ مخالف جذبات عروج پر ہیں وہ صرف ترکیہ کے آئین کی پاسداری اور صاف و شفاف انتخابات کی بات کیا کریں‘ اگر حزب اختلاف کو واضح اکثریت ملے تو جلد نتائج قبول کرنے اور انہیں مبارک باد دے دیں بصورت دیگر خاموش رہیں خصوصاً جب انتخابات دوسرے مرحلے پر چلے جائیں‘ ترکیہ میں اگر نئی حکومت آگئی تو ترکیہ کی یورپی یونین میں شمولیت، دونوں میں آزاد تجارت کے معاہدے اور ترک شہریوں کی یورپی یونین کو بغیر ویزے کے آمدو رفت پر بات چیت فوری شروع ہو جانی چاہیے۔ امریکہ کو بھی ترکیہ کے ساتھ اپنے دیرینہ مسائل جیسے ایف سولہ جنگی جہازوں کی فروخت اور تجدید، شام میں کردوں پر اختلافات، روسی ایس 400دفاعی نظام اور ممکنہ طور ہر ترکیہ کی مالیاتی نظام کو امریکہ اور یورپی یونین کی جانب سے تعاون کی فراہمی پر مذاکرات کرنے ہوں گے۔