گزشتہ کچھ عرصے سے خبروں اور تجزیوں کا مرکز رہنے والا چیٹ بوٹ 'چیٹ جی پی ٹی پاکستان میں بھی اب بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کے زیادہ تر صارفین کالج اور یونیورسٹی طلباو طالبات ہیں۔گزشتہ برس نومبر کے اواخر میں مصنوعی ذہانت پر تحقیق کرنے والی کمپنی ''اوپن اے آئی نے ایک نیا چیٹ بوٹ لانچ کیا تھا، جو مصنوعی ذہانت کو استعمال کرتے ہوئے صارفین سے گھنٹوں بات کر کے ان کے سوالات کے جوابات دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اپنی لانچ کے پہلے ہفتے میں ہی اسے دس لاکھ سے زیادہ لوگوں نے استعمال کیا اور اب تک یہ کئی نئے ریکارڈ بنا چکا ہے۔دنیا بھر میں اس چیٹ بوٹ کے زیادہ تر صارفین سکول، کالجز اور یونیورسٹیوں کے طلبا و طالبات ہیں، جنہیں یہ بوٹ ہوم ورک اور اسائنمنٹ بنانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ اس سے پہلے طلبا گھنٹوں گوگل کر کے اپنا متعلقہ مواد تلاش کیا کرتے تھے۔ اس باعث نیویارک سمیت کئی شہروں کے تعلیمی اداروں میں چیٹ جی پی ٹی کو بین کر دیا گیا ہے۔پاکستان میں بھی یونیورسٹی اور کالجز کے طلبہ اس چیٹ بوٹ کو بڑے پیمانے پر استعمال کر رہے ہیں۔ پہلے سے زبوں حالی کا شکار تعلیمی نظام پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟ ایک بین الاقوامی ادارے نے اپنی رپورٹ میں اس کا جائزہ لیا ہے۔جس میں براہ راست طلبہ سے بات چیت کی گئی ہے۔ ایک معروف یو ٹیوبرجو سائنسی موضوعات پر لکھتے ہیں، جو ایک طویل عرصے سے پاکستان میں سائنس اور فلکیات سے متعلق آگاہی پھیلانے کے لئے کوشاں ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ گزشتہ ایک ماہ سے یہ چیٹ بوٹ استعمال کر رہے ہیں۔ اس دوران جہاں ایک جانب مصنوعی ذہانت نے انہیں کافی متاثر کیا وہیں۔ انہوں نے نوٹ کیا کہ اس سے ملنے والی معلومات کو حتمی نہیں مانا جا سکتا۔چیٹ جی پی ٹی میں 2021 سے پہلے کا ڈیٹا اپلوڈ کیا گیا ہے، یعنی بہت سی جدید معلومات اس میں مکمل طور پر موجود نہیں ہیں۔ اس یوٹیوبر کے مطابق دورانِ چیٹ انہوں نے بوٹ کو کنفیوژ کرنے کی کوشش کی اور حیران کن طور پر وہ اس میں کامیاب رہے۔ ان سے کچھ دیر بحث کرنے کے بعد بوٹ نے تسلیم کیا کہ پانچ اور پانچ گیارہ کے برابر ہوتے ہیں۔ان تجربات سے معروف یو ٹیوبریہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ چیٹ جی پی ٹی سے ملنے والے ڈیٹا کو لازمی کراس چیک کیا جانا چاہئے،اگر طلبا اس پر اندھا اعتماد کر کے یونیورسٹی کے امتحانات یا اسائنمنٹ کی تیاری کریں گے تو وہ کم نمبرز آنے پر اساتذہ سے شکوہ نہیں کر سکتے۔ڈاکٹر احتشام جو لاہور کے ایک کالج میں لائف سائنسز ڈیپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ حیاتیاتی سائنس میں زیر تعلیم طلبا کا رجحان چیٹ جی پی ٹی کی طرف اتنا زیادہ نہیں ہے، ''جبکہ ریاضی، طبیعیات، شماریات وغیرہ کے طلبا اس کا زیادہ استعمال کر رہے ہیں کیونکہ انہیں اس سے کیلکولیشن یا مساواتیں وغیرہ حل کرنے میں فوری مدد ملتی ہے۔ایک اور صاحب جو یونیورسٹی میں سپیس سائنسز کے طالبعلم ہیں۔ انہوں نے اس حوالے سے بتایا کہ انہیں چیٹ جی پی ٹی نے بہت زیادہ متاثر کیا ہے، ''یہ ہمہ وقت ساتھ رہنے والے ایک دوست کی طرح ہے، جو کسی بھی طرح کا سوال یا مسئلہ حل کرنے میں ان کی مدد کرتا ہے۔ ان کے مطابق اس سے پہلے انہیں گھنٹوں گوگل پر اپنا متعلقہ مواد تلاش کرنا پڑتا تھا مگر وہی کام چیٹ جی پی ٹی کی مدد سے بغیر دقت ہو جاتا ہے، ''اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہو رہا ہے کہ ریاضی اور طبیعیات کے کیلولیشن میں با آسانی غلطی کی نشاندہی ہو جاتی ہے۔ جبکہ پہلے درست جواب نہ آنے پر گھنٹوں ایرر ڈھونڈنے میں لگ جایا کرتے تھے۔ ایک اور طالب علم نے بتایا کہ مصنوعی ذہانت کا استعمال زندگی کے ہر شعبے میں بڑھ رہا ہے۔ ان کے بقول ایگری کلچر میں بہتر فصلوں کی کاشت سے، زلزلے اور سونامی کی پیشن گوئی اور جینیات میں روز افزوں پیش رفت کے لئے جدید اے آئی ماڈلز استعمال کیے جا رہے ہیں، بالکل اسی طرح چیٹ جی پی ٹی بھی تعلیمی اداروں میں جاری تحقیق میں اساتذہ اور طلبا دونوں کے لئے معاون ہو سکتی ہے۔ تحقیق کے دوران کسی مسئلے کے حل کے لئے محققین مختلف ماڈیولز اور سافٹ ویئرز استعمال کرتے ہیں۔ لیکن چیٹ جی پی ٹی کی مدد سے متعلقہ کوڈ باآسانی جنریٹ کیا جا سکے گا، جس میں اپنی ضروریات کے مطابق رد وبدل بھی ممکن ہو گا۔ اس طرح کم وقت میں زیادہ موثر اور مصدقہ نتائج حاصل کیے جا سکیں گے۔ایک ماہر تعلیم کا کہنا ہے کہ جیسا کہ ہمارے سامنے ہے کہ چیٹ جی پی ٹی کے صارفین میں بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے تو لا محالہ اس کا منفی استعمال بھی سامنے آئے گا۔ ان کے بقول نیویارک کے تعلیمی اداروں میں اس بوٹ کا استعمال پہلے ہی بین کر دیا گیا ہے کیونکہ طلبا خود محنت کرنے کے بجائے اس کی مدد سے ہوم ورک اور اسائنمنٹ تیار کر رہے تھے‘آن لائن پلیٹ فارم سے ہونے والی نقل کو پکڑنے کے لئے اساتذہ ٹرینیٹن سٹوڈیو نامی سافٹ ویئر کا استعمال کرتے ہیں۔ لیکن پہلے سے فیڈ شدہ معلومات کو مصنوعی ذہانت کی مدد سے پروسیس کر کے طلبا جو مواد تیار کریں گے اسے پکڑنا یقینا ایک بڑا چیلنج ہو گا۔ ان کے خیال میں اس کا ایک حل یہ ہے کہ اساتذہ مخصوص وقت میں طلبا کو ایسے پراجیکٹس دیں جو وہ ان کے سامنے مکمل کریں اس طرح طلبا کی قابلیت اور نقل دونوں کی قلعی کھل جائے گی۔