چھٹی کے دن گیارہ بجے ڈبل بیڈ پر بیٹھ کر قہوہ پینے کا اور ہی مزہ ہے۔قہوہ بن کر آیا تو ساتھ پتنوس میں سلونے بسکٹ بھی پڑے تھے۔پھر تو لیجے مزہ اور قہوہ کی پیالیوں سے سرکیاں لیجے۔ اورگھر والے بھی آ کر بیٹھ گئے۔گپ شپ کا ساماحول بن گیا۔ کوئی اپنی سی سنا رہا تھا اور کوئی اپنی ہانک رہا تھا۔مزے کا ماحول تھا۔ قہوے کے بہانے ماحول اور بھی خوشگوار ہو گیا۔ یہ اپنی خوش گپیوں میں مگن تھے۔مگر ہم تو ہیں لکھاری اور وہ بھی انتہائی حساس کہ چھوٹی سی بات کا فسانہ بنانے والے ہیں۔میرا ذہن فلیش بیک میں پشاور کی ایک ثقافتی چیز کی طرف چلا گیا۔وہ چیز تھا تخت جو اب بہت ہی کم گھروں میں کہیں ملے تو ملے ورنہ پہلے توگھروں کے صحن میں پڑے ہوئے تخت ہوتے تھے۔ وہ تخت نہ تھے بلکہ ایک حجرہ بیٹھک چوپال کی مثال تھے۔ جس پرگھر کے سب افراد مل کر بیٹھتے تھے۔اس پر گاؤ تکیے لگے ہوتے تھے۔کھانے کا وقت ہو تو یہ ڈائننگ ٹیبل کا کام دیتے اور کوئی تقریب ہو تو سنٹرل ٹیبل بن جاتے۔ الغرض اس سے بہت سے کام لئے جاتے تھے۔ کچھ بھی نہ ہو تو دادا جان اس پر مستقل بیٹھ کر پورے گھر کی اس چھوٹی سی سلطنت کے سفید ریش اور بے تاج بادشاہ بن کر ہر آنے جانے والے پر نظر رکھتے کون کس وقت گیا کس وقت آیا سب کچھ ان کے از خود نوٹس میں ہوتا۔ان کی آنکھ بچا کر گھر سے نکلنا اور ان کی آنکھ اوجھل ہو تو گھر میں داخل ہو کر اپنے کمرے تک رسائی کسی کے بس کا کام نہ تھا۔جب کھانے کا وقت ہوتا تو تخت پر کھانے کا دستر خوان بچھا لیا جاتا اور سب اپنے اپنے کمروں سے نکل کر صحن میں پڑے اس تخت پر آبیٹھتے۔پھر گپ شپ کے ماحول میں کھانے کے ساتھ گھریلو مسائل پر بھی بات چیت ہوتی او رکسی کے گھر شام کو شادی پر جانا ہوتا تو وہ معاملا ت بھی زیرِ بحث آتے۔ یوں مستقبل کی منصوبہ بندی بھی ترتیب دی جاتی۔جیسے گلی کوچوں میں کنگ سائز چارپائی پڑی ہوتی۔ وہ لارج سکیل پر معاشرتی اکٹھ کی علامت ہوتی۔ یہ تخت بھی چھوٹے سکیل پراندرونِ خانہ گھریلو اتفاق کی نشانی ہوتا۔کوئی اگر کھانے پر یا شام کی چائے پر صحن میں اس تخت پر آکر حاضری نہ دیتا تو تشویش کی لہر دوڑجاتی۔ کیوں خیر تو ہے کہاں چھوٹے صاحب وہ کیوں نہیں آئے جاؤ ان کو اپنے کمرے میں دیکھو کیا کررہے ہیں۔ناشتہ ٹھنڈا ہو رہا ہے۔جیسے حاضری رجسٹر میں ناموں کا اندراج ہو تا ہے اسی طرح یہاں حاضری نہ لگانا اس رجسٹر میں غیر حاضری تصور کیا جاتا۔مجھے وہ دن یاد آ رہے ہیں جب ہم لوگ پھر وہ لوگ جو اب نہیں رہے مگر پشاور کے پشوری اس تخت کو ایک باقاعدہ منصب دیتے۔ اس پر بیٹھ کر باہر سے آنے والے مہمان کی تواضع بھی کی جاتی۔مجھے ا س تخت کا خیال آتا ہے تو مصحفی کا وہ شعر بھی یاد آتا ہے ”مصحفی گوشہ عُزلت کو سمجھ تختِ شہی“۔اس زمانے میں ٹی وی تو چھوڑ ریڈیو بھی کسی کسی کے پاس ہوتا۔ ہمارے چچا عبدالوحید چوک ناصر خان میں لکڑ منڈی میں گھر تھا۔ہم وہاں ساجھے کے مکان میں رہا کرتے تھے۔ وہ ریڈیو پر روز بی بی سی سنا کرتے اس کے لئے ایک تار سی ریڈیو سے نکال کر اوپر چھت پر لے جاکر کہیں ٹانک دیتے۔اس سے ریڈیو کی آواز بہتر ہو جاتی۔ اب مجھے خیال آتا ہے کہ مجھ میں ریڈیو سننے کا انتہائی حد تک شوق جو در آیا تھا وہی اسی نسلی اچھے اثرات کے تحت آیا تھا۔اس وقت زیادہ تر لوگ فارغ ہوا کرتے تھے۔ اپنا کام کاج سے آ کر اگر سردی ہوتی تو گلی کے کونے پر دھوپ تلے دو پاؤں پر اکڑوں بیٹھ کر دھوپ سینکتے۔پھر گھر میں آکر مصحفی کے شعر کی طرح اس تختِ شاہی پر براجمان ہو کر گوشہ ئ عافیت کو انجوائے کرتے۔اب تو سوشل میڈیا کی چیزوں نے تو ماحول کو تاخت و تاراج کر دیا ہے۔اس وقت تخت بہت مزہ دیتا تھا اور اب بھی جن گھروں میں ہے وہاں اس کی اپنی سی تاثیر ہے اپنا مزہ ہے۔اس پر قالین بچھا دیتے تھے او راسی پر سو جاتے۔چونکہ نیچے سخت لکڑی ہوتی اس ل ئے کمرکی چولیں اس سے درست رہتیں۔ سو کر اٹھتے تو چستی کا احساس ہوتا۔اب تو قصہ یہ ہے کہ اب تو گھر کا ہر رکن اپنے کمرے میں بچوں کی مزید چھوٹے سے نظامِ حکومت کو چلا رہا ہے۔الگ الگ ریاستیں بن گئی ہیں۔ یونین ٹوٹ گئی ہے۔سب اپنے اپنے کمروں تک محدود ہو گئے ہیں۔اس حد تک کہ بچے کوباہر صحن میں بھی نہیں چھوڑتے کہ گھر کے دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلیں کودیں۔مگر ان کو اندیشہ ہے کہ اس طرح بچے خراب ہو جائیں گے۔اب تو عجیب طرح کا ماحول بن گیا ہے۔ جس کا بس چلتا ہے اپنی فیملی کو لے کر کرایہ کے گھرو ں میں اٹھ جاتے ہیں یا حیثیت ہو تو اپنا لگ گھر بنا کر وہاں جا مقیم ہوتے ہیں۔معلوم نہیں دم توڑتی ہوئی پشوری ثقافت کی حفاظت کیسے ہو۔