لغت نویس،ادیب اور شاعر ناجی خان ناجی 81 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے‘18 مئی2023کو ان کی وفات کی خبر آئی تو افسوس،دکھ اور صدمہ کے ساتھ ان کی قلمی،ادبی اور سماجی خدمات کی فلم ذہن کی سکرین پرآہستہ آہستہ چلنے لگی۔12اکتوبر1942کو خیبر پختونخوا کے پہاڑی گاؤں شوتخار میں متوسط خاندان سے تعلق رکھنے والے زمیندار وزیرخان کے گھر پیدا ہونے والے ناجی خان ناجی جب 7سال کے ہوئے توپرائمری سکول گاؤں سے 6کلومیٹر دور تھا۔مڈل اور ہائی سکول 4دنوں کی پیدل مسافت پرتھے۔بظاہر تعلیم کے مواقع میسر نہیں تھے تاہم باپ نے حوصلہ دیا،بیٹے نے ہمت کی، حالات کا مقابلہ کیا اور حصول علم کے بعد اپنے گاؤں کے سکول میں مدرس لگ گئے۔ یوں جس نوجوان کو تعلیم کی سہولت میسر نہیں تھی اُس نے شوتخار نامی گاؤں میں نونہالوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے پر اپنی تمام ترتوانائیاں صرف کیں اور استادوں کا استاد کہلوایا۔پھر یہ نیک کام اپنے بیٹے نورالہادی ناجی کوسپرد کرکے دیاسے دیا جلانے اور شمع محفل بن کرروشنی پھیلانے کا سلسلہ صدقہ جاریہ کے طورپر جاری رکھنے کا اچھا اہتمام کیا۔ خیبر پختونخوا کے مشہور ومعروف اساتذہ ڈاکٹر سعید اللہ قاضی،جہاں بادشاہ،پروفیسر عبیدالرحمن،خیراللہ حواری،ضیاء الدین،ڈاکٹر ہارون الرشیدتبسم،پروفیسر عزیز الرحمن عزیز اور بخیار زمین کے ساتھ آپ کے دوستانہ اوربرادرانہ تعلقات تھے ان کا کہنا تھا کہ استاد صرف کمرہ جماعت میں استاد نہیں ہوتا کمرہ جماعت سے باہر بھی استاد ہوتا ہے اپنے قول کے مطابق انہوں نے کمرہ جماعت کے اندر بچوں کو پڑھایا،کمرہ جماعت سے باہر بڑوں کے معاشرے کی اصلاح کا بیڑوہ اُٹھایا۔ معاشرتی برائیوں کے خلاف زبان وقلم سے جہاد کا علم بلند کرکے سماج کو اسلامی اصولوں کے مطابق سنوارنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا اس کام میں قاری فیض اللہ چترالی،حاجی نورسایہ خان‘ حاجی محمد حسین اور حاجی اموخت علی نے ان کاساتھ دیاان کے اردو کلام کا مجموعہ”ضرب قلم“ کاایک ایک شعر اور مصرعہ اس جدوجہد کی یاد دلاتا ہے حاجی مہدی محمد کی جدائی پراُنہوں نے پوری نظم لکھی‘ناجی خان ناجی نے ہمہ جہت مصروفیات میں اپنی مادری زبان کھوار کو وقت دیا کھوار اردو لغت ان کی اہم یادگاروں میں شامل ہے اس لغت کی صورت میں انہوں نے تن تنہا ایک اکیڈمی اور ادارے کاکام اپنے ہاتھوں سے انجام دیا کھوار کے ساتھ ان کی محبت بچپن سے تھی لیکن اظہار کا ذریعہ نہیں تھا 1965 میں ریڈیو پاکستان پشاور سے کھوار پروگرام آیا پھرجمہور اسلام کے ماہانہ مجلے میں کھوار چھپنا شروع ہوا تو خطوط اور نگارشات کے ذریعے پروگرام اور مجلے میں ناجی خان ناجی نے بھرپور حصہ ڈالا یوں آپ کانام شہزادہ حسام الملک‘ پروفیسر اسرار الدین،وزیراعلی شاہ،غلام عمر‘ چنگیز خان طریقی،ولی زار خان ولی،گل نواز خان خاکی،عزیزالرحمن بیغش‘ رحمت اکبر خان رحمت‘مرزا فردوسی اور بابا ایوب کی طرح نامور شخصیات کی فہرست میں لیا جاتا ہے۔آپ کے کھوار کلام کا پہلا مجموعہ”تروق زوالو“ یعنی تلخ وشرین کے نام سے شائع ہوچکا ہے آپ کے کلام میں مولانا الطاف حسین حالی اور ماہر ۱لقادری کارنگ جھلکتا ہے اس لئے جوکلام ریڈیوپاکستان سے نشرہوا یامشاعروں میں پڑھا گیا وہ سامعین کوبیحد پسند آیا آپ کی موجودگی مشاعرے کی کامیابی کی ضمانت ہواکرتی تھی آپ کی غیر مطبوعہ کتابوں میں آئینہ اردو،پگڈنڈیوں سے شاہراہ تک(سوانح عمری)معلم کھوار،کلیات ناجی اور آئینہ کھوار شامل ہیں،زبان وادب اور تہذیب وثقافت کے لئے آپکی خدمات کے اعتراف میں آپ کو کمال فن ایوارڈ،تریچ میرایوارڈ،اقراء ایوارڈ،غلام عمر ایوارڈ،کھوار اہل قلم ایوارڈ اور انجمن ترقی کھوار کی طرف سے بابائے کھوار ایوارڈ عطا کئے گئے زندگی کے آخری سالوں میں آپ کا معمول تھا کہ سردیاں کراچی میں اپنے بیٹے مولانا سراج النبی کے ہاں گزارتے تھے آخری سال کمزوری کی وجہ سے سفر نہ کرسکے اپنے گاؤں شوتخار میں وفات پائی اور وہیں مدفون ہوئے۔
اشتہار
مقبول خبریں
روم کی گلیوں میں
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ترمیم کا تما شہ
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ثقافت اور ثقافت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
فلسطینی بچوں کے لئے
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
چل اڑ جا رے پنچھی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ری پبلکن پارٹی کی جیت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
10بجے کا مطلب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
روم ایک دن میں نہیں بنا
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
سیاسی تاریخ کا ایک باب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی