نفسیاتی دائروں میں‘ انسانی دماغ وہی زمین ہے جہاں سوچ‘ جذبات اور اعمال کے بیج بوئے جاتے ہیں‘ یہاں خیالات پرورش پاتے ہیں اور معاشرتی طرز عمل کے طور پر پروان چڑھتے ہیں۔ پوشیدہ دانشورانہ صلاحیت کے حامل ایک جذباتی مخلوق کے طور پر‘ انسان مختلف تجربات سے گزرتا ہے۔ کچھ تجربات فائدہ مند تو چند اس کے برعکس نتائج کے حامل ہوتے ہیں۔ یہ ذائقہ اور ناپسندیدگی تجربات‘ سوچ کے نمونوں اور اعمال سے پیدا ہوتی ہے جن سے کوئی انسان عمر کے مختلف ادوار میں گزرتا ہے۔انسانی خیالات اور حقائق میں تضاد پایا جاتا ہے اور اگر یہی تضادات سمجھنے کی صلاحیت حاصل کر لی جائے تو زندگی کے چوراہے پر غلط سمت سفر نہیں ہوگا۔ انسانی تصورات‘ آرزوؤں اور ارد گرد حقیقتوں کے درمیان جنگ کا شکار ہونے کے بچنے کے لئے بھی تضادات و حقائق کو سمجھنا ضروری ہے۔ اکثر اوقات حقائق ڈکٹیشن کی صورت اُمنگوں پر فتح حاصل کر لیتے ہیں پھر شکست پچھتاوا‘ بغض‘ حسد‘ ناراضگی اور مایوسی بڑھتی ہے اور انسان اُس لمحے یا لمحات کی خوشی سے محروم و جاتا ہے جس میں وہ سانس لے رہا ہوتا ہے۔ منفی توانائی‘ لوگ‘ یادیں اور واقعات غلبہ حاصل کرلیں انسان اپنی ناکامیوں کو شکست سمجھنے لگتا ہے اور محرکات کی بجائے خود کا اِن کے لئے ذمہ دار گردانتے ہوئے ایسے نتائج کو تسلیم کر لیتا ہے جو اُس کے حق میں نہیں ہوتے۔معاشی مشکلات اور بیروزگاری کے دور میں سوال یہ ہے کہ حالات اور واقعات اُمنگوں کے برعکس ہوں تو ایسی صورت میں کیا کرنا چاہئے؟ حقیقت کے اعتراف اور حقیقت کا ادراک بیرونی دنیا میں پھیلی خود غرضی سے نجات کا باعث ہو سکتی ہے۔ علاوہ ازیں دوسروں کی مدد اور دوسروں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے سے بھی اپنے آپ کے لئے آسانیاں پیدا کرتے ہوئے ’متوقع نتائج‘ حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ کوئی بھی چیز جسے ہم ’کنٹرول‘ کرنے کی کوشش کرتے ہیں آخر کار ہماری زندگیوں کو کنٹرول کرنے لگتی ہے لیکن اگر دو مخالف قوتوں سے جڑنے اور اُن سے الگ ہونے یا فاصلہ کرنے کے درمیان توازن قائم کر لیا جائے تو اِس سے خاطرخواہ فائدہ ممکن ہے۔ معاشی مشکلات کے دور میں ’مضبوط خاندانی نظام‘ مفید ثابت ہو سکتاہے۔ رشتوں‘ تجربات‘ یادوں اور خیالات کو برقرار رکھنے سے خوشی اور تکمیل کا احساس ملتا ہے جبکہ انہیں چھوڑنے (ترک) کرنے سے نقصان ہوتا ہے کیونکہ مقابل میں ہم ایسی چیزوں کا انتخاب کر لیتے ہیں جو دائمی کارآمد نہیں ہوتیں اور یوں زندگی میں آگے بڑھنے اور سہارے کا عمل رک جاتا ہے۔ اسی طرح‘ ہر چیز کو چھوڑنا اور مسلسل تبدیلی کی تلاش بھی ’فلاح و بہبود‘ کے لئے نقصان دہ ہوسکتی ہے۔ ایک مکمل حیات‘ جیسا کہ مولانا رومؒ تجویز کرتے ہیں کہ ”مسلسل تبدیلی اور مستقل مزاجی کے درمیان توازن کا نام زندگی ہے۔“ تاہم مذکورہ دونوں قوتوں کے درمیان نازک توازن قائم کرنا کہنے کو تو آسان ہے لیکن آسان نہیں ہوتا اور ایسی بہت سی چیزیں یا عادات ہوتی ہیں جن سے باآسانی چھٹکارا نہیں پایا جا سکتا جیسا کہ موبائل فون کی عادت‘ جو کسی خطرناک نشہ آور چیز کی طرح اثر رکھتی ہے۔ امن و امان کی صورتحال کو مزید خرابی سے بچانے کے لئے چند روز سے موبائل فون پر انٹرنیٹ کی خدمات محدود کر دی گئی ہیں اور اِس کی وجہ سے نوجوان جس کرب سے گزر رہے ہیں‘ اُسے سمجھنا آسان ہے کیونکہ عادات انسانی معاشرے اور انسانی تجربات میں نتائج کی صورت دلچسپ اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ عادات کو کئی بار‘ چھوڑنا مشکل ہوسکتا ہے۔ عادات ترک کرنے کا فن انسانی مزاج اور زندگی کو تبدیل کرتا ہے۔ اِسی لئے عادات پر نظرثانی‘ عادات ترک کرنے کی شعوری کوششیں اور مفید عادات کی بہتری کے لئے مشق زندگی کو پُرسکون اور زیادہ اطمینان بخش بنا سکتی ہے۔ زندگی کا یہی اصلاحی پہلو اِسے جذباتی‘ ذہنی‘ معاشرتی اور جسمانی فلاح و بہبود کا باعث بناتا ہے۔ ضرورت وقت کے تقاضوں‘ لوگوں‘ واقعات اور رشتوں کو سمجھنے کی ہے۔ انسان کی زندگی کا احاطہ بس یہی ہے کہ یہ سیکھتا رہے یا سکھاتا رہے۔ نئے تجربات سے گھبرانا نہیں چاہئے یہ ترقی کے راستے کھول سکتے ہیں۔ تبدیلی کو اپنانے اور زندگی کی متحرک حقیقتوں کے مطابق ڈھال کر ہی ”حالات کا مقابلہ ممکن ہے۔“ اور اس وقت دیکھا جائے تو دنیا میں وہی ممالک اور اقوام کامیاب ہیں جو وقت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تبدیلی کے عمل کو اپناکر جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ترقی کے سفر کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔