ترکیہ میں صدارتی انتخابات میں کوئی امیدوار جیتنے کیلئے درکار پچاس فیصد ووٹوں سے زیادہ حاصل نہ کرسکا اور اب 28 مئی کو انتخابات کے دوسرے مرحلے میں ان دو امیدواروں کا مقابلہ ہوگا جنہوں نے پہلے مرحلے میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔ساتھ ہی ساڑھے چھ کروڑ ترک رائے دہندگان نے پارلیمانی انتخابات میں رجب طیب اردوغان کی اے کے پارٹی اور ان کے اتحادیوں کو چھ سو رکنی پارلیمان میں اکثریت دے دی اور یوں اے کے پارٹی پھر اپنا وزیر اعظم منتخب کرسکے گی۔غیرسرکاری نتائج کے مطابق اب تک ننانوے فیصد ووٹ گنے گئے ہیں جن میں اسلام پسند پارٹی کے امیدوار اور موجودہ صدر طیب اردوغان نے 49.37 فیصد جب کہ ان کے حریف سیکولر سیاست دان اور چھ جماعتی اتحاد کے امیدوار کمال قلیچ داراوغلو نے 44.99 فیصد حاصل کیے ہیں۔ دائیں بازو کے اتحاد کے امیدوار سینان اوگان نے 5.31 فیصد ووٹ لیے ہیں جبکہ ہوم لینڈ پارٹی کے اینک نے 0.43 فیصد ووٹ حاصل کیے۔اردوغان نے رائے عامہ کے جائزوں کے برعکس، جن میں ان کے حریف داراوغلو کی ان پر معمولی برتری ظاہر کی گئی تھی بلکہ ایک روز پہلے انہیں پچاس فیصد سے زیادہ حمایت حاصل ہونے کا دعوی کیا گیا تھا، داروغلو سے تقریبا چار فیصد یا 26 لاکھ زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔صدارتی و پارلیمانی نتائج اپوزیشن کے لیے دھچکا ہیں جنہیں توقعات کے برعکس کم ووٹ ملے اور یوں پارلیمان میں کم نشستیں ملیں گی۔ اردوغان نے رائے عامہ کے جائزوں میں اپنے حصے سے زیادہ ووٹ حاصل کیے مگر وہ پہلے راؤنڈ میں اپنی ابتدائی برتری زیادہ دیر تک قائم نہ رکھ سکے اور یوں جیت کیلئے درکار پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل نہ کر سکے۔داروغلو، جس کیلئے پہلے مرحلے میں جیت کا موقع اور امکان زیادہ تھا کے کیمپ میں ابتدا میں بڑا جوش وخروش تھا مگر جب اردوغان کی برتری بڑھتی رہی تو وہ ماند پڑ گیا۔ داراوغلو نے اردوغان پر نتائج پر خوامخواہ اعتراضات کرکے ان میں تاخیر لانے اور ترک عوام کی رائے کا راستہ روکنے کا الزام لگایا مگر پر اعتماد انداز میں اعلان کیا کہ اگر صدارتی انتخابات دوسرے مرحلے میں چلے جاتے ہیں تو وہ عوام میں تبدیلی کیلئے زبردست خواہش کے پیش نظر صدر منتخب ہوجائیں گے۔اردوغان نے اپنی پارٹی ہیڈ کوارٹر میں
ہزاروں پرجوش پارٹی کارکنوں اور حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ "ہم چھبیس لاکھ ووٹوں سے اپنے حریف سے آگے ہیں۔ ابھی نتائج جاری ہیں اور حتمی سرکاری نتائج آنے تک ہماری برتری مزید بڑھ جائے گی۔ میرا خیال ہے ہم پہلے مرحلے میں ہی جیت جائیں گے تاہم اگر قوم دوسرے مرحلے میں فیصلہ چاہتی ہے تو ہم راضی ہیں۔ ہم جمہوری لوگ ہیں۔ اپنی پوری سیاسی زندگی میں، بغیر کسی استثنیٰ کے، ہم نے ہمیشہ قومی رائے عامہ کے فیصلے کا احترام کیا ہے۔ ہم اس الیکشن میں بھی اس کا احترام کرتے ہیں اور اگلے انتخابات میں بھی اس کا احترام کریں گے‘ آنے والے دو ہفتے ترکیہ کی سیاسی فضا میں غیر یقینی حالت، کشیدگی اور جوڑ توڑ سے عبارت ہوں گے۔ دوسرے مرحلے میں اردوغان اور داراوغلو دونوں سینان اوگان کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کریں گے جو کنگ میکر کا درجہ حاصل کرگیا ہے۔ مگر اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ سینان اوگان موجودہ صدر اردوغان کی حمایت کرلیں گے۔ اردوغان اس وجہ سے بھی دوسرے مرحلے میں اعتماد کے ساتھ جائیں گے کہ ایک وہ موجودہ صدر ہیں، دوسرے ان کی پارٹی اور اتحادیوں نے پارلیمان کی چھ سو نشستوں میں سے زیادہ جیت لی ہیں اور اب ان کی پارٹی کا وزیر اعظم پھر بن جائے گا۔ یوں اردوغان کی کامیابی کے امکانات ان کے حریف کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔چھ جماعتی اتحاد کو پارلیمانی انتخابات میں بھی شکست ہوگئی اگرچہ رائے عامہ کے جائزوں میں اس کی اکثریت ظاہر کی گئی تھی۔ اردوغان کی پارٹی اور اتحادیوں کو پارلیمانی انتخابات میں 49.38 جب کہ حزب اختلاف کے چھ جماعتی اتحاد کو 35.16 فیصد ووٹ پڑے۔اردوغان روسی صدر ولادی میر پیوتن کے سب سے اہم اتحادیوں میں سے ایک ہیں اور ان کی فتح ممکنہ طور پر روس کیلئے یقینا طمانیت کا باعث ہوگی لیکن امریکہ، چند یورپی ممالک اور مشرق وسطی کے چند رہنما اس
سے بے چین ہوجائیں گے جو اردوغان کی پالیسیوں اور انداز سے خوش نہیں ہیں۔اردوغان نے نیٹو کے رکن اور یورپ کے دوسرے سب سے بڑے ملک ترکیہ کو ایک عالمی کھلاڑی میں تبدیل کر دیا، اسے نئے پلوں اور ہوائی اڈوں جیسے بڑے منصوبوں کے ذریعے جدید بنایا ہے اور ہتھیار سازی کی ایک اچھی صنعت بنادی ہے جس کی عالمی مانگ ہے۔ لیکن ترک لیرا کی کم ہوتی ہوئی قدر اور افراط زر کی بڑھتی ہوئی شرح کی بدستورچیلنج کے طور پر موجود ہیں۔تازہ غیر فیصلہ کن ووٹ کے بعد لیرا ڈالر کے مقابلے میں ایک دن میں دو مہینے کی سب سے نچلی سطح پر آگیا اور 19.7 پر بند ہوگیا۔ ماہرین کہتے ہیں لیرا کی قدر اگلے دو ہفتے میں چوبیس پچیس فی ڈالر تک آسکتی ہے۔اردوغان اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک میں استحکام اور تسلسل کی ضرورت پر زور دیں گے۔ امریکہ اور مغربی ممالک اردوغان کے حریف کمال قلیچ داراوغلو اور ان کے چھ جماعتی اتحاد کے حامی ہیں اور داراوغلو کی جیت مغربی ممالک کیلئے خوشی کا پیغام ہوگی۔ یاد رہے داروغلو بائیں بازو سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے جلسوں میں جدید ترکیہ کے بانی مصطفی کمال اتاترک کی تصاویر لہرائی جاتی ہیں۔ داروغلو نے کہا ہے کہ اگر وہ منتخب ہوگئے تو وہ مغرب کے ساتھ دوبارہ اچھے تعلقات قائم کرنے، یورپی یونین میں شامل ہونے کا عمل پھر شروع کرنے اور انسانی حقوق پر یورپی کنونشن کے قواعد پر عمل کریں گے۔ وہ یہ بھی کہہ چکا ہے کہ وہ ترکیہ کو پھر امریکہ کے ایف-35 جنگی جہاز پروگرام میں شامل کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے گا۔ واضح رہے امریکہ نے 2019 میں ترکیہ کو اس پروگرام سے نکال دیا تھا جب 2017 میں ترکیہ نے ایس-400 فضاء دفاعی نظام روس سے خریدنے کا معاہدہ کرلیا۔ترکیہ میں صدر اور پارلیمنٹ کا انتخاب ہر پانچ سال بعد ہوتا ہے۔ صدر کا انتخاب بالغ رائے دہی کی بنیاد پر براہ راست عوامی ووٹوں سے ہوتا ہے جب کہ پارلیمان میں پارٹیوں کو نشستیں متناسب نمائندگی یعنی انتخابات میں ان کے حاصل کردہ عوامی ووٹوں کے تناسب سے دی جاتی ہیں۔ ترکیہ میں چھبیس سیاسی جماعتیں ہیں۔ پارلیمان میں داخل ہونے کیلئے ہر پارٹی کو انتخابات میں کم سے کم سات فیصد عوامی ووٹ حاصل کرنے ہوتے ہیں ورنہ اسے کوئی نشست نہیں ملتی۔