آل انڈیا نیشنل کانگریس نے224ممبران پرمشتمل کرناٹک اسمبلی کی 136 نشستوں پر کامیابی کے جھنڈے گاڑ ھ کرحکمران بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) جومحض65 نشستیں جیت سکی ہے کو پچھاڑ کر رکھ دیاہے جبکہ جنتا دل سیکولر(جے ڈی ایس)کے حصے میں صرف 19 نشستیں آئی ہیں۔ بھارت کی جنوبی ریاست کرناٹک کی 224 نشستوں کی ریاستی اسمبلی کیلئے انتخابات 9مئی کو منعقدہوئے جب کہ نتائج کا اعلان گزشتہ روزکیاگیاہے۔واضح رہے کہ کرناٹک میں کامیابی کے لئے وزیر اعظم نریندرمودی کی قیادت میں زبردست مہم چلائی گئی لیکن بی جے پی یہاں مسلسل دوسری مرتبہ اقتدار حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے جسے بی جے پی اور نریندر مودی کے زوال کا آغاز قراردیاجارہاہے۔ نریندر مودی نے اپنے امیدواران کی انتخابی مہم کوکمک پہنچانے کے لئے کرناٹک کا24مرتبہ دورہ کیا جب کہ بی جے پی نے حسب روایت یہاں بھی ہندو انتہا پسندی کاکارڈ کھیلنے کاکوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا حتیٰ کہ پوری انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں کے ساتھ ساتھ جنگ آزادی کے ہیرو ٹیپو سلطان شہید کو بھی نہیں بخشا گیا بلکہ اس ضمن میں بی جے پی نے ایک ایسا من گھڑت بیانیہ بھی گڑھنے سے دریغ نہیں کیا جس میں ٹیپو سلطان کوبطور ولن پیش کرنے کے علاوہ ان کی شہادت کا محرک انگریزوں کی بجائے دو انتہا پسند ہندو بھائیوں کو قرار دیاجاتارہا۔یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ 2018ء میں کرناٹک اسمبلی انتخابات میں بی جے پی نے 104، کانگریس نے 80 اور جنتا دل ایس نے 37 نشستیں حاصل کی تھیں۔ یہاں شروع میں تو کانگریس اور جنتا دل مشترکہ طورپر حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی تھیں لیکن بعد ازاں بی جے پی اس اتحاد میں دراڑ پیداکرکے خود برسراقتدار آگئی تھی اور یہاں ابھی تک اس کی حکومت تھی اسی لئے اس کی حالیہ شکست کو ایک بڑے اپ سیٹ سے تعبیرکیاجارہاہے۔ بھارت میں اگلے سال عام انتخابات کے تناظر میں کرناٹک کے حالیہ نتائج بی جے پی کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ یہ بات دلچسپی کی حامل ہے کہ حالیہ انتخابات میں ووٹوں کی مجموعی شرح 73.19 فیصد رہی ہے جسے کرناٹک میں قانون ساز اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ میں اب تک کی سب سے زیادہ شرح بتایاجارہاہے۔دوسری جانب کرناٹک کے انتخابی نتائج کے بعد راجستھان اور چھتیس گڑھ کے متوقع انتخابات میں بھی کانگریس کی کامیابی کی توقع ظاہر کی جارہی ہے۔جب کہ کرناٹک کی شاندار فتح کے بعد بی جے پی کے بعد کانگریس ملک کی دوسری بڑی پارٹی کے طورپر اُبھرکر سامنے آئی ہے جوگزشتہ سال کے شروع تک صرف دو ریاستوں راجستھان اورچھتیس گڑھ میں برسراقتدار ہونے کے ناتے عام آدمی پارٹی کے ہم پلہ تھی کیونکہ وہ بھی ان دنوں دو ریاستوں دہلی اور پنجاب میں برسراقتدار ہے لیکن گزشتہ سال ہمہ چل پردیش کی جیت اور اب کرناٹک کی فتح کے بع دکانگریس کو کافی عرصے بعد ملک کی چار ریاستوں میں کامیابی نصیب ہوئی ہے جسے مستقبل کے عام انتخابات کے تناظر میں ایک بڑی تبدیلی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔بھارتی مبصرین کایہ بھی کہناہے کہ اگر کانگریس بی جے پی کے مقابلے میں اپوزیشن کا ایک موثر الائنس بنانے میں کامیاب ہوگئی تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ وہ اگلے عام انتخابات میں بی جے پی کو ٹف ٹائم نہ دے سکے۔اس سلسلے میں ان جماعتوں کا حوالہ بھی دیا جارہا ہے جو مختلف ریاستوں میں برسراقتدار ہیں۔اس ضمن میں یہ بتانا خالی از دلچسپی نہیں ہوگا کہ بی جے پی اس وقت ملک کی تیس میں سے دس ریاستوں میں برسراقتدار ہے جب کہ اس کے مقابلے میں کانگریس کی چار اور عام آدمی پارٹی کی دو ریاستوں میں حکومت ہے۔لہٰذا اگر کانگریس ان میں سے اکثر جماعتوں کااعتماد حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے تو وہ بی جے پی کے مقابلے میں ایک زیادہ بڑا اور وسیع انتخابی اتحاد بنانے کی پوزیشن میں آ سکتی ہے۔اس تمام بحث کا نتیجہ یہ بھی ہے کہ بی جے پی کی پاکستان اور مسلم دشمنی کا کارڈ بھی اب مزید چلنے والا نظر نہیں آرہا اور ہندو انتہا پسندی کو پروان چڑھانے کی جو پالیسی بی جے پی نے اپنائی ہوئی تھی اس کے نتائج الٹے سامنے آنے لگے ہیں۔