ایک تو بندہ بیمار نہ پڑے او ربیمار پڑے تو جلد صحت یاب ہو جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ محتاجی ہو تی ہے۔ جو کسی بھی شکل میں اچھی نہیں۔مگر کیا کریں انسان ہی انسان کے کام آتا ہے۔اکیلا بندہ تو کچھ بھی نہیں۔بیمار کو اٹھانے اور پھر دوا دارو دینے اور پھر دوبارہ سے اپنی چارپائی پر لٹانے میں بہت سے مرحلے ایسے ہیں کہ جہاں سگے خون کے رشتے بھی ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔کسی غیر کا کا کیا گلہ کریں۔اسی لئے محتاجی اچھی چیز نہیں۔وجہ یہ نہیں کہ کوئی کسی بیمار کی خدمت نہیں کرنا چاہتا۔مگر اتنا ہے کہ اس مصروف ترین دور میں اور تیز طرار اور تیز رفتا ر وقت کے دھارے میں آکر کسی کے پاس وقت جو نہیں رہا۔ ہر ایک کو ہر قسم کی مصروفیات درپیش ہیں۔یہ تو معاشرہ جب جب ترقی کرتا ہے۔انسانوں کے پاس وقت کم ہوتا جاتا ہے۔پھر جب وقت کم ہوتا ہے تو روپیہ پیسہ کمانے کی غرض سے بہ امرِ مجبوری کام پر جاتے ہیں۔پیچھے اگر مریض ہو تو اس کو قسمت کے سہارے بھی کبھی چھوڑنا پڑتا ہے۔ ویسے بھی انسانی فطرت ہے کہ مصروفیت سے بہت سی نفسیاتی بیماریاں دب جاتی ہیں او روہ مریض کو تنگ نہیں کرپاتی۔یہ غریب ملک ہے یہاں گھر والے اپنے کچن کے خرچے کو چلانے کے لئے کام کریں یا بزرگوں کی خدمت میں رات دن جُتے رہیں۔خیر ہمارے ہاں وہ صورت نہیں جو باہر ملکوں میں ہے۔یہاں تو ہم ماں باپ اور بزرگوں کی اتنی خدمت کرتے ہیں کہ جب تک وہ انتقال نہیں کر جاتے ہم ان کی پٹی سے الگ نہیں ہوتے۔بلکہ میری والدہ مرحومہ جب بسترِ مرگ پر تھیں تو میں ان کی چارپائی کے ساتھ ہی زمین پر سوتا تھا تاکہ اگر یہ رات کو اٹھنے کی کوشش کریں تو مجھ پر ان کا پاؤں آئے اور میری آنکھ کھل جائے۔ خیر گھر گھر کا اپنا اپنا جدا جدا مسئلہ ہے۔مگر یہ ہے کہ جو بیمار ہیں کاش شفایاب ہوں۔ہر چوتھے گھر میں کوئی نہ کوئی بیمارموجود ہوتا ہے۔پھر بیمار پڑ جائیں خواہ کوئی بیماری ہو مگر بیمار خو داپنے آپ کو گھر والوں پر ایک بوجھ سمجھنے لگتا ہے۔گھر والے لاکھ اپنے خلوص کا مظاہرہ کرتے ہیں کیونکہ بیماری طویل ہو جائے تو مریض چڑچڑا ہو جاتا ہے۔ جب چڑچ ڑا ہو جائے تو اوکھی اوکھی اور اکھڑی باتیں کرتا ہے۔ یہ امید ہے کہ بیمار کو شفا دلاتی ہے۔اگر مریض ناامید ہو جائے تو یہ اچھا نہیں۔دوسری طرف بیمار انسان دوسروں کے مقابلے میں زیادہ حساس ہوجاتا ہے کیونکہ اس کی توجہ زیادہ تر اپنی بیماری اور دوسروں کی تیمار داری پر مرکوز رہتی ہے۔عام حالات میں اگر کوئی اس سے ملاقات نہ بھی کرتا تو اسے احساس ہی نہ ہوتا تاہم بیماری میں اسے ایک ایک شخص کی یاد آنے لگتی ہے کہ وہ فلاں نے تو میرا پوچھا ہی نہیں اور فلاں نے مجھے جیسے بھول گیا ہے، حالانکہ معمول میں بھی ان افراد کے ساتھ ناطہ اس قدر ہی ہوتا ہے۔اس لئے تو ضروری ہے کہ خواہ کوئی کس قدر بیمار کیوں نہ ہویعنی اس کو خواہ جتنا بیمار ہو کہنا چاہئے کہ میں خدا کی مہربانی سے شفایاب ہو جا ؤں گا۔پھر اس میں دعا کا عمل دخل بھی ہوتا ہے۔ اس کے لئے وہ خود یا اس کے بزرگ پھر اس کے چاہنے والے دعا گو ہوں تو یقین کریں وہ نہ صرف شفایاب ہوتا ہے بلکہ جلد شفا حاصل کرتا ہے۔پھر بیمار کے لئے اس کے کمرے میں گھر والے ہمہ وقت موجودہو نے چاہئیں کیونکہ مریض بور ہو کر گپ شپ کا ماحول کا مانگتا ہے۔ایسے میں اگر اس کو اکیلے چھوڑکر باقی کے گھر والے دوسرے کمرے میں ہاؤ ہو مچارہے ہوں تو ان کا حق ہے مگر پہلا حق گھر کے بیمار کا خیال رکھنا ہے۔مریض میں مسئلہ یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر وہ بزرگ ہے اور گھر میں سب سے عمر رسیدہ اور با رتبہ ہو تو وہ اپنی منواتا ہے۔اس سے گھر کے نوجوان لڑکے لڑکیاں تنگ ہونے لگتے ہیں۔پھر بیمار کی شفایابی اس میں بھی ہوتی ہے کہ جہاں بہت سے دفتری اور دوست لوگ اس کو دیکھنے آتے ہیں ہمسائے اور دیگر احباب اس کی احوال پُرسی کرتے ہیں۔
یہ الگ بات ہے کہ بسا اوقات مزاج پرسی مریض کے لئے فائدے کے بجائے نقصان کا باعث بھی بن سکتی ہے شاید اسی وجہ سے کچھ اپنے خون کے رشتہ دا راس کو اگنور کرتے ہیں۔ اس میں کچھ خاندانی مسئلوں کی کشاکش کا بھی عمل دخل ہوتا ہے۔مگر مریض سب آنے والوں کو خوش آمدید کہتا ہے لیکن جن کا انتظار ہوتا ہے وہ نہیں آتے تو مریض کو شفا ملنے میں بڑی دیر ہو جاتی ہے۔