پاکستان بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے ’1.1 ارب ڈالر‘ قرض ملنے کے لئے پُراُمید ہے لیکن یہ قرض ’آئی ایم ایف‘ پروگرام کے نویں جائزے کی تکمیل کے بعد ہی ممکن ہو پائے گا حکومت کا دعویٰ ہے کہ ’آئی ایم ایف‘ کی تمام شرائط پوری کر دی گئی ہیں جبکہ ’آئی ایم ایف‘ مزید شرائط پوری کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ قرض کی قسط جاری ہونے سے قبل کمرشل بینکوں یا دوست ممالک سے مزید فنڈز کا انتظام کیا جائے۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ’آئی ایم ایف‘ بحرانی صورتحال میں پاکستان کی مدد کرنے کے لئے تیار نہیں اور پاکستان کو گزشتہ سال آنے والے تباہ کن سیلاب کے بعد کچھ ریلیف ملنے کی امید تھی لیکن ’آئی ایم ایف‘ نے پاکستان کے سیلاب سے متاثرہ لوگوں کو ریلیف فراہم کرنے سے انکار کر دیا اور پہلے سے بھی زیادہ سخت مالیاتی شرائط عائد کر دیں۔ پاکستان نے ہمیشہ ادائیگیوں کے توازن کے بحران اور مالی بحران پر قابو پانے کے لئے ’آئی ایم ایف‘ سے رجوع کیا اور وجہ یہ تھی کہ سرد جنگ کے دوران پاکستان امریکہ کا قریبی اتحادی تھا لیکن امریکہ کے زیراثر ’آئی ایم ایف‘ نے پاکستان کو ’ٹف ٹائم‘ دیتے ہوئے ’ہٹ دھرمی‘ والا رویہ اختیار کیا جس کی ایک وجہ تیزی سے بدلتی ہوئی جیو پولیٹیکل صورتحال بھی ہے۔ متحدہ عرب امارات‘ سعودی عرب اور چین سمیت دوست ممالک پہلے ہی تیزی سے کم ہوتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لئے مالی امداد فراہم کرنے کا وعدہ کر چکے ہیں۔ پاکستان کے پاس اس وقت سٹیٹ بینک کے ذخائر میں 4.38 ارب ڈالر موجود ہیں جو صرف ایک ماہ کے درآمدی بل کی مالیت ہے ظاہر ہے کہ ’آئی ایم ایف‘ آخری قسط کے اجرأ میں تاخیری حربے استعمال کر رہا ہے۔ موجودہ آئی ایم ایف پروگرام جون میں ختم ہو جائے گا لہٰذا اصل معاہدے کے مطابق پروگرام کو مکمل کرنے کے لئے بہت کم وقت بچا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ’آئی ایم ایف‘ اپنے ہدف پر نظرثانی کیوں کرتا ہے اور بیل آؤٹ پیکج کے ساتھ شرائط کیوں جوڑ رہا ہے؟ ایک ایسے وقت میں جبکہ پاکستان معاشی بحران سے گزر رہا ہے تو ’آئی ایم ایف‘ سخت شرائط کیوں عائد کر رہا ہے۔ پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک کے ساتھ ’آئی ایم ایف‘ کا رویہ صرف معاشی پالیسی یا ان ممالک میں معاشی استحکام کو یقینی بنانا نہیں بلکہ یہ سب ’جغرافیائی سیاسی کھیل‘ کا حصہ ہے جو ایک عرصے سے پاکستان اور اِس کے اطراف میں کھیلا جا رہا ہے۔’آئی ایم ایف‘ کے سخت رویے کے درپردہ سیاسی وجوہات ہیں۔ مغربی طاقتوں اور چین روس کے درمیان جغرافیائی سیاسی کشمکش اس کی بنیادی وجہ ہے۔ مغربی سرمایہ دارانہ طاقتیں معاشی زوال کا شکار ہیں اور معاشی طاقت آہستہ آہستہ گلوبل نارتھ سے گلوبل ساؤتھ کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔ چین‘ انڈونیشیا اور برازیل اور دیگر ابھرتی ہوئی معیشتیں نئی اقتصادی طاقتوں کے طور پر اُبھر رہی ہیں۔ زیادہ سے زیادہ ممالک برکس میں شامل ہونے کے خواہشمند ہیں۔ امریکہ اب دنیا کی واحد سپر پاور نہیں‘ بلکہ اسے چین کی جانب سے سنگین چیلنج کا سامنا ہے۔ پاکستان ایک آزاد خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہونے کی بھاری قیمت ادا کر رہا ہے۔ ملک متوازن خارجہ پالیسی اپنانے اور کسی بھی دوسرے خودمختار ملک کی طرح اپنے قومی مفادات کا تحفظ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پاکستان چین اور یوکرین کے بارے میں امریکہ اور اِس کے اتحادیوں کی پالیسی پر عمل نہیں کر رہا اور چین کے ساتھ اس کے قریبی فوجی سفارتی اور اقتصادی تعلقات پاکستان اور امریکہ کے درمیان تنازعے کی بڑی وجہ ہیں۔ امریکی ’سی پیک‘ جیسے منصوبوں کو خطے میں اپنے غلبے اور اثر و رسوخ کے لئے براہ راست چیلنج سمجھتا ہے۔ پاکستان اپنی تاریخ کے بیشتر حصے میں امریکہ کا قریبی اتحادی رہا ہے لیکن گزشتہ دو دہائیوں میں صورتحال بدل گئی ہے کیونکہ امریکہ نے بڑھتے ہوئے چین کو روکنے کی کوشش کے لئے بھارت کے ساتھ وسیع تر تعلقات استوار کئے ہیں اور بھارت اِس تبدیل شدہ جغرافیائی سیاسی جدوجہد میں امریکہ کا اتحادی ہے۔ اب پاکستان کو نئے حالات کی مناسبت سے عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ تعلقات استوار کرنا ہوں گے۔