احساس کی دولت

ہر انسان اپنی وراثت کے طور پر اپنے بچوں کو خوبیاں اور کچھ خامیاں دیتا ہے۔ کچھ خوبیاں ایسی ہوتی ہیں  جو تربیت کے ضمن میں آتی ہیں۔ کسی گھر میں داخل ہوتے ہیں سمجھ دار بچے کسی مہمان سے یا رشتہ دار سے کیسے سلام دعا کا رشتہ نبھاتے ہیں اس بات سے ماں باپ کی تربیت ایک دم سامنے آ جاتی ہے یہاں کینیڈا میں مجھے ایسے کئی خاندان ملے جنہوں نے اپنے چھوٹے اور بڑے بچوں کو بھی سکھایا ہواہے کہ مہمان یا رشتہ دار کو سلام کرتے ہیں گلے ملتے ہیں اوراس وقت نہایت خوشی ہوتی ہے اور حیرت بھی ہوتی ہے کہ جب دروازے پر ہی دوڑ کر بچے آ کر ہاتھ ملاتے ہیں، سلام کرتے ہیں اور ایسے کئی گھر بھی دیکھی ہیں جن کے بچے یہ تو دیکھ  رہے ہوتے ہیں کہ کوئی گھر  میں آیا ہے پھر وہ اس کی پرواہ کئے بغیر ادھر ادھر ہو جاتے ہیں بات مغرب یا مشرق کی نہیں ہے بات یہ  ہے کہ آپ کے گھر کا ماحول یا اس بات پر کام کر رہا ہے کہ آپ کے بچے اپنی اسلامی روایات اور طور طریقے سیکھ رہے ہیں اور کیا آپ کا ماحول اس تربیت کو اہمیت دے رہا ہے کہ آپ کی آنے والی نسل آپ کے بچے زمانے کے طور طریق چال چلن سیکھیں …… طور طریق سے مراد سب سے پہلا طریق تو سلام دعا سے شروع ہوتا ہے والدین کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ اپنے بچوں کو  یہ بات نہایت صاف طریقے سے سمجھائیں کہ آتے ہوئے مہمانوں سے ملنا کتنا اہم اور ضروری ہوتا ہے بعض اوقات ہم اپنے گھروں میں یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کوئی بزرگ گھر کا آواز دے رہا ہے لیکن ہمارے بچے سنی ان سنی کرکے کھسکنے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔ والدین کا فرض ہے کہ ان کے دل میں بزرگوں کی بات کو سننے‘ ان کا کہنا ماننے اور ان کی خدمت کرنے کے بارے میں تلقین کریں ایسا اسی وقت ہو سکتا ہے کہ جب گھر کے بڑے بھی اپنے بزرگوں کی عزت کریں۔
 ہمارے گھروں میں ایک بات جو  عام ہے وہ بچوں کے سامنے رشتہ داروں‘ ہمسایوں‘ دوستوں‘  عزیزوں کی برائیوں کو بہت کھول کھول کر بیان کرنا ہے، خاص طو رپر حساس رشتے جن سے بڑوں کی ضرور ہی کوئی چپقلش چل رہی ہوتی ہیں،پہلے تو پیٹھ پیچھے بات کر نا ہی مناسب نہیں ہے لیکن کوئی ایسا ضروری واقعہ ہو گیا ہے کہ  بات ضرور کرنی ہے تو مہربانی کریں بچوں کے سامنے نہ کریں۔شاید ہم خود برائی کرکے بعدمیں انہی رشتہ داروں کے سامنے خوشنودی کا رویہ اختیار کریں لیکن وہ بچے جن  کے سامنے ہم برائی کرچکے ہیں وہ نہ صرف اپنے دل میں ان رشتوں کے بارے میں برا محسوس کریں گے ہمارے  بارے میں بھی بہت برا سوچنے پر مجبور ہوں گے اور اگر  بدقسمتی سے یہ ہماری معمول کی باتیں ہیں تو کبھی توقع نہ کریں کہ آپ کی اولاد اس برائی سے کسی طور بچ پائے گی۔ اسی طرح میاں بیوی میں ایسی کئی باتیں ہوتی ہیں جو جھگڑے کی صورت اختیار کر سکتی ہیں بہتر یہ ہوتا ہے  اس وقت آپس میں یہ مسائل بحث میں لائیں جب بچے موجود نہ  ہوں یا پھر آپ اپنے کمرے میں جا کر گھریلو مسائل کو زیربحث لاسکتے ہیں اس کا مقصد صرف یہی ہے کہ آپ کی اولاد کے سامنے آپ کی عزت و تکریم برقرار رہ سکے‘ ان کے لئے ماں اور باپ دونوں ہی قابل محبت
 اور قابل عزت ہوتے ہیں‘ جن میں کسی طور پر بھی فرق نہیں آنا چاہئے‘ گھر کے اندر‘ یا عزیز رشتہ دار اگر بیمار ہیں تو دونوں صورتوں میں اپنے بچوں کو تیمارداری کا بھرپور انداز سکھائیں گھر کے اندر وہ محسوس کریں کہ کوئی تکلیف یا بیماری آگئی ہے تو ان کا کردار ان کو سمجھائیں‘ اسی طرح باہر کی دنیا میں کوئی دوست رشتہ دار ہمسایہ بیمار ہے یا کسی بھی طرح کی تکلیف میں آگیا ہے  تب بھی اپنے ان بچوں کو جو نویں دسویں اور اس سے زیادہ والی کلاسز کی عمر کے ہیں اپنے ساتھ ان کے گھر لے جائیں ان کے سامنے تیمار داری کریں ان کی تکلیف کا ذکر کرکے ان کو تسلی دیں تاکہ ان کو طریقہ آئے کہ کیسے الفاظ بولے جاتے ہیں اگر کوئی فوت ہوگیا ہے تب بھی ماں باپ کا فرض ہے کہ وہ تعزیت کا نہ صرف طریقہ بتائیں الفاظ کاچناؤ  سکھائیں اور اپنے ساکھ ان کو لے جا کر اپنے ساتھ بٹھا کر ان سے بھی تعزیت کروائیں یا کم از کم آپ کے ساتھ ہی بیٹھ جائیں خواہ لڑکیاں ہوں یا لڑکے‘ دونوں کو زندگی گزارنے کے یہ ضروری عوامل سکھانے ضروری ہیں‘ ہم اپنے بچوں کیلئے کوشش کرتے ہیں کہ ان کو دنیا کی ہر نعمت لا کر ان کے قدموں میں ڈال دیں اگر آپ صاحب حیثیت میں تو ضرور ایسا کریں لیکن اس دولت دنیا کے ساتھ احساس کی دولت اگر آپ اپنے بچوں کو دینے میں کامیاب ہوگئے تو یہ نہ صرف آپ کی خوش قسمتی ہوگی بلکہ آپ کے سامنے اور آپ کے بعد آپ کا نام روشن رکھے گی اور اس طرح یہ شمع آپ کی اولاد اپنی آنے والی اولاد کیلئے روشن کرتی ہی چلی جائے گی‘ لڑکا اور لڑکی میں یہ تخصیص ضروری نہیں ہے دونوں ہی کو زندگی کا طور طریق اس زمانے میں نبھانا ہے بہتر ہے آپ ان کو ایسی خوبصورتیاں‘ احساسات‘ ذمہ دار رویے دے دیں کہ وہ اچھے انسان بن جائیں۔