پرانے زمانے میں جب سڑکیں نہیں ہوتی تھیں۔اس وقت لوگ جب دوسرے شہرو ں کو جاتے تومٹی کی کچلی ہوئی پگڈنڈیوں پر سے ہوکر اونٹوں پر قافلوں کی شکل میں سفر کرتے۔صحراؤں میں سے شارٹ کٹ لگاتے۔مثلاً کسی کو اگر لاہور جانا ہوتا تو اس کو معلوم ہوتا کہ فلاں تاریخ کو پشاور کے جی ٹی روڈ پر سے جو کچا راستہ تھا وہاں اونٹوں کا قافلہ لاہور کے لئے ایک ریل گاڑی کی شکل میں روانہ ہوگا۔ ہر اونٹ کی مہار پچھلے اونٹ کی رسی سے بندھی ہوتی تھی۔ ا س میں دس اونٹ بھی ہوسکتے تھے اور زیادہ بھی۔سب سے پہلے اونٹ پر اس قافلہ کا سالار بیٹھا ہوتا تھا جس کو روزکے سفرکی وجہ سے راہ کی ہر مشکل کا حال معلوم تھا۔قافلہ سالار کے اونٹ کے گلے میں لٹکی ہوئی گھنٹی ہارن کا کام دیتی۔جیسے کہ آج کل بسوں کے ڈرائیوروں کے ہارن کام دیتے ہیں۔کسی اور اونٹ کے گلے میں یہ گھنٹی نہ ہوتی۔ گویا تمام اختیار امیرِ قافلہ کے پاس ہوتا۔وہ میرِ کارواں اگر قافلہ کو روانہ کرنا چاہتا تو تھوڑی دیر پہلے گھنٹی بجا کر پیچھے کے اونٹوں والوں کو اس امر کی اطلاع دیتا۔پھر جب قافلہ روانہ ہوتا تو راہ میں کہیں کھانے کا موقع آتا تو اونٹ کے گلے میں لٹکتی ہوئی گھنٹی پھر بجتی اور خاص انداز کے ساتھ کہ جس کی آواز یہ بتلاتی کھانے کا وقت ہو گیا ہے۔سب اپنی اپنی سواری سے اترو سب اپنا اپنا لایا ہوا کھانا کھانے لگتے۔پھر تھوڑی دیر سستاتے تو اس کے بعد یہی گھنٹی بس کے ہارن کی طرح دوبارہ بجتی۔ اس کا مطلب یہ ہوتا کہ جو قافلے والے منتشر ہیں وہ پھر سے اکھٹے ہوجائیں۔تاکہ قافلے والے اپنی منزل کو روانہ ہو جائیں۔ گویا اس انتشار کو اتحاد میں بدل دیا جاتا۔ علامہ اقبال کی اول اردوشاعری کی کتاب ”بانگِ درا“ کا بھی یہی مطلب اورمقصد ہے۔بانگ کا مطلب آواز اور درا کا مطلب اونٹ کے گلے میں لٹکی ہوئی گھنٹی ہے۔یعنی علامہ اقبال نے ظاہر کیا ہے کہ میری یہ شاعری اور یہ کتاب بانگِ درا برصغیر کے منتشر عوام کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے اپنی آزادی کی منزل کی طرف جانے کے لئے ایک پیغام ہے۔ گھنٹی سے یاد آیا کہ آج کل بھی گھنٹیاں بجنے لگی ہیں۔ مگر اس جدید دور میں ان کی نوعیت جدا ہے۔آگے میں اس کی وضاحت کرنے جا رہا ہوں۔ قصہ یہ ہے کہ قریب کی ہیں منزلیں مگر بہت دور کی بات ہے۔ ہزاروں سال پہلے نوشیروان بادشاہ نے اپنی رعایا کو فوری عدل مہیا کرنے کی غرض سے اپنے قلعہ کے مین گیٹ پر ایک زنجیر لگا رکھی تھی۔ اسی طرح ماضی میں اور دربار بھی گزرے ہیں‘ جہانگیر بادشاہ نے بھی اسی قسم کی ایک زنجیر کا بندوبست کیا اور فریادی کو سیدھا اندر آنے کا آسان موقع فراہم کیا۔اب اس زمانے میں اگر فریادی کی سہولت کے لئے اس قسم کا کام کیا جائے تو بیکار ہوگا۔کیونکہ جب موبائل فون اور پھر وٹس ایپ ہے اور دروازے پر لگی ہوئی بغیر تار کے گھنٹی ہے تو کیوں اس قسم کے ہزاروں سال پہلے والے طور طریقے اپنائے جائیں۔