علاقائی معیشت 

احسن اقبال صاحب کا یہ بیان قابل ستائش ہے کہ کسی سیاسی جماعت کو ختم کرنے کا کوئی پلان نہیں تجربہ بتاتا ہے کہ ماضی میں اگر کسی سیاسی جماعت کو کالعدم بھی قرار دے دیا گیا تو اس سے نہ تو ارباب بست و کشاد کو کوئی خاص سیاسی فائدہ ہوا اور نہ ہی عوام الناس کو، کیونکہ کسی بھی جمہوری نظام  ارباب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ نظریات کا موثر جواب صرف بہتر نظریات پیش کر کے ہی عوام کا دل جیتنے کے بعد ہی کیا جاسکتا ہے۔  ارباب اقتدار اور حز ب اختلاف اگر تحمل و برداشت کے سنہرے اصول کو اپنی سیاست کا شعار بنا لیں تو اس ملک کے کئی اندرونی مسائل ختم ہو جائیں اس جملہ معترضہ کے بعد ایک مقتدر سیاست دان کی طرف سے دی گئی اس تجویز پر چند جملے رقم کرنے ضروری ہیں کہ جس میں وزارت خارجہ کو یہ مشورہ دیا گیا ہے کہ ایران افغانستان ترکیہ اور پاکستان کو ایک کنفیڈریشن یا بلاک بنانے کیلئے متحرک ڈپلومیسی اختیار کی جائے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ چار ملک اگر یک  جان دو قالب ہو جائیں تو نہ صرف یہ کہ یہ خطہ ہر قسم کی بیرونی سیاسی اور عسکری مداخلت سے پاک و صاف ہو جائے بلکہ ان کی معیشت میں بھی نکھار آ سکتا ہے اور اگر وقت کے ساتھ ساتھ اس اشتراک عمل میں وسطی ایشیا کی ریاستوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو پھر تو سونے پر سہاگے والی بات ہو جائے۔  اگر آپ اس خطے کی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر بھی ڈالیں تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ ماضی بعید میں اس خطے کے مندرجہ بالا ممالک دو طرفہ کئی تجارتی رشتوں سے آپس میں جڑے ہوئے تھے۔ اطالوی سیاح مارکو پولو کی کتاب کے مطالعے سے اس خطے کے ممالک کے آپس میں تجارتی روابط کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ شاہراہِ ریشم اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی کہ جس کو چین آج کل روڈ اینڈ بیلٹ کے منصوبے کے تحت دوبارفعال بنانے میں مصروف ہے۔ مانا کہ اس سپنے کو عملی رنگ دینا کوئی آ سان کام نہ ہو گا کیونکہ سپر پاورز کے اپنے علیحدہ علیحدہ سیاسی ایجنڈے ہیں اور وہ کبھی بھی یہ نہیں چاہیں گے کہ ان  کے اثر و رسوخ میں خلل پڑے اور کوئی تیسری قوت دنیا کی سیاست میں اپنا سر اٹھائے، پر اس ضمن میں وطن عزیز کی وزارت خارجہ ایک بلیو پرنٹ تیار کر کے وزارت خارجہ کی سطح پر افغانستان ترکیہ اور ایران کے حکمرانوں سے سنجیدہ بات چیت کاایک سلسلہ تو بہ آسانی شروع کر سکتی ہے۔  اس سلسلے میں ہم بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہو سکتے ہیں گو کہ یہ کام آسان نہ ہوگا پر ہر منزل تک پہنچنے کیلئے پہلا قدم تو اٹھانا ہی پڑتاہے اور اگر پاکستان اس نیک کام میں پہل کر لے تو اس میں بھلا کیا قباحت ہو سکتی ہے۔ وسطی ایشیا کی ریاستیں ہوں کہ پاکستان ایران افغانستان اور ترکیہ۔ قدرت نے ان کو ایسے جغرافیائی محل و وقوع سے نوازا ہے کہ ان کو روڈ اور ریل سے بہ آ سانی جوڑا جا سکتاہے۔ معدنی ذخائر سے یہ ممالک مالامال ہیں،جس طرح یورپی یونین کے ممالک آپس میں ایک ایسے نظام کے ذریعے جڑ ے ہوئے ہیں کہ ان کی باقی دنیا کے ساتھ تجارت اور دیگر معاملات مشترکہ پالیسی کے تحت طے ہوتے ہیں،اسی طرح اگر پاکستان، ایران، ترکیہ اور افغانستان آپس میں جڑ جائیں تو یہ دنیا میں ایک طاقتور ترین اور موثر بلاک ثابت ہوسکتا ہے۔