اچھے اقدامات 

آج کے کالم کا آ غازہم درج ذیل شہ پاروں سے کر رہے ہیں‘سب سے بھاری گناہ وہ ہے جسے مرتکب ہونے والا سبک سمجھے‘کمزور کا یہی زور چلتا ہے کہ وہ پیٹھ پیچھے براہی کرے‘حکومت لوگوں کیلئے آزمائش کا امتحان ہے‘جو شخص مختلف چیزوں  کاطلب گار ہوتا ہے اس کی ساری تدبیریں ناکام ہو جاتی ہیں‘مال کی فراوانی ایک نعمت ہے پر اس سے بہتر صحتمند بدن ہے اور اس سے بہتر دل کی پرہیز گاری ہے۔کسی کو اس کے حق سے زیادہ سراہنا چاپلوسی ہے اور حق میں کمی کرنا کوتاہ بیانی ہے‘خدا نے دولتمندوں کے مال میں فقیروں کا رزق مقرر کیا ہے لہٰذا اگر کوئی فقیر بھوکا رہتا ہے تو اس لئے کہ دولت مند نے دولت کو سمیٹ لیا ہے اور خدا  اس کا مواخذہ کرنے والا ہے‘ دوسروں کے پسماندگان سے بھلاہی کرو تاکہ تمہارے پسماندگان پر بھی نظر شفقت پڑے‘ حسد کی کمی بدن کی تندرستی کا سبب ہے‘جب دو مختلف دعوتیں ہوں گی تو ان میں سے ایک ضرور گمراہی کی دعوت ہو گی‘لالچ ہمیشہ کی غلامی ہے‘جو چیز شمار میں آ ئے اسے ختم ہونا چاہئے اور جسے آنا چاہے وہ آ کر رہے گا‘ تھوڑا دینے سے  شرما نہیں کیونکہ خالی ہاتھ پھیرنا اس سے بھی گری ہوئی بات ہے‘اگر حسب منشا تمہارا کام نہ بن سکے تو پھر جس حالت میں ہو مگن رہو‘عقلمند کی زبان اس کے دل کے پیچھے ہے اور بے وقوف کادل اس کی زبان کے پیچھے ہے‘بہترین دولت مندی یہ ہے کہ تمناؤں کو ترک کر دیا جائے‘جس نے طویل امیدیں باندھیں اس نے اپنے اعمال بگاڑ لئے“ مندرجہ بالا آ فاقی حقیقتوں کے تذکرے کے بعد اگر آج کے اہم عالمی اور قومی معاملات کا ایک ہلکا سا جائزہ لے لیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔یہ امر خوش آئند ہے کہ ایران سے بجلی کی فراہمی شروع ہو گئی ہے اگلے روز اس ضمن  ایرانی صدر نے 100 میگاواٹ بجلی ٹرانسمیشن لائن کا افتتاح کر دیا ہے گزشتہ دو تین ماہ میں دو نہایت ہی اچھے کام ہوئے ہیں ایک تو روس سے سستے داموں  خام تیل کی  فراہمی شروع ہوئی ہے اور دوسرا یہ کہ ارباب اقتدار گرمی میں  بجلی کے ممکنہ بحران سے نمٹنے کیلئے متحرک اور فعال  نظر آ رہے ہیں اس کالم کے توسط سے ہم  آج متعلقہ حکام بالا کی توجہ اس ریلوے ٹریک کی زبوں حالی کی طرف مبذول کرانا چاہتے ہیں جو فرنگیوں نے راولپنڈی سے لے کر مانزئی تک بچھایا تھا جو  ٹانک کے ساتھ جنوبی وزیرستان  کے   بارڈر پر واقع ہے‘سالہا سال کی عدم توجہی اور غفلت کی وجہ سے اس ٹریک کی ریلوے پٹڑی جگہ جگہ سے  اکھڑ چکی ہے اس ریلوے ٹریک پر کوہاٹ بنوں لکی مروت سرائے نورنگ اور ٹانک  کے مقامات پر ریلوے اسٹیشن قائم کئے گئے  جن کے آ ثار آج بھی نمایاں ہیں‘ اس ریلوے ٹریک کو آج بھی تھوڑی سی توجہ کے ساتھ بحال اور فعال بنایا جا سکتا ہے جس سے خیبر پختونخوا پنجاب  اور اسلام آباد اور خصوصاً خیبرپختونخوا کے جنوبی اضلاع کے باسیوں کو آمد و رفت کے کئی فوائد حاصل ہوں گے ایک تو مسافروں کو ایک سستی سواری میسر آ جائے گی اور دوسرا یہ کہ اس روٹ پر اگر مال گاڑی بھی چلا دی جائے  تو اسکے ذریعے  تاجر اپنی مصنوعات بشمول اشیاء نہ صرف جنوبی اضلاع تک پہنچا سکیں گے بلکہ  روڈ ٹرانسپورٹ کے مقابلے میں چونکہ اس سامان کی رسائی پر ان کو کم  خرچ کرنا پڑے گا اس لئے دور دراز علاقوں میں بسنے والے لوگوں کو اشیائے صرف کم قیمتوں میں میسر آ سکیں گی‘ اسی ریلوے ٹریک کو  پیزو سے موڑ دے کر ڈیرہ اسمٰعیل خان کی جانب بھی بہ آ سانی بڑھایا جا سکتا ہے اور تھوڑی سی مزید محنت کیساتھ جنوبی وزیرستان میں واقع تنائی کے مقام سے اسے فورٹ سنڈیمن کے راستے کوئٹہ بلوچستان سے بھی منسلک کیا جا سکتا ہے مقام افسوس ہے کہ پی آئی اے کی طرح پاکستان ریلوے کے ساتھ  بھی ماضی میں سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا گیا ورنہ فرنگی 1947 ء میں چند ریاستی ادارے بشمول پاکستان ریلوے کو ورثے میں ہمارے لئے بڑی اچھی حالت میں چھوڑ گئے تھے‘افسوس کہ ہم نے اس میں امپرومنٹ کرنے کے بجائے اسے جڑ سے ہی باہر  اکھاڑ پھینکا۔