ایور گرین موضوع

اصل میں سیاست کا موضوع اگر سدا بہار نہیں تو زندگی سدا بہار ضرور ہے‘جس میں ہر قسم کے موضوعات لبالب بھرے ہوئے ہیں زند گی کو غور سے دیکھیں اور روزمرہ کے واقعات کی جانچ پرکھ کریں تو زندگی کی رنگا رنگی اپنی جگہ شوخ بھی ہے اور دکھ بھری بھی‘ ان گنت مسائل ہیں اور ہم ہیں دوستو۔سیاسی موضوعات سے تو اپنے کو الرجی سی ہے‘ٹی وی اخبارات وغیرہ میں اتنا کچھ آ جاتا ہے کہ کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں پڑتی‘ہم سے کہا جاتا ہے کہ بس یار خدا کا واسطہ اب سیاست پر لکھو یہ شادی بیاہ اور بیماریاں اور ہنسی مذاق وغیرہ کو چھوڑو مگر اخبارات اور ٹی وی کے ٹاک شو تو سیاسی رنگا رنگی سے لبریز ہو تے ہیں‘ کہیں کوئی کس کے ساتھ الجھ رہا ہے اور کوئی کس کے ساتھ مگر ہم نے اپنے کالموں میں عام زندگی کو پیش کرنا ہوتا ہے جس میں ہمارے معاشرے کے ہر انسان کا دخل ہو اور وہ بلا کسی مخصوص طبقہ کی نمائندگی کرنے کے اپنی رائے دے سکے وہ ہمارے بتلائے ہوئے کسی نکتہ پر اپنی رائے دے اور دوسروں کو بھی اس پر سمجھا سکے اور قائل کرے۔ہمارے موضوعات تو زندگی کے ارد گرد گھومتے ہیں پھر زندگی کے ارد گرد گھومنے والے مسئلوں کو ہم کالموں کے فریم میں بند کر دیتے ہیں پھر اس فریم میں سے ایک تصویر جھلکتی ہے جو معاشرے کے چہرے کے خدوخال واضح کرتی ہے زندگی کھیل نہیں ایک حقیقت ہے کہیں شیریں اور کہیں تلخ ہے‘جس کو جی نہ چاہے تو بھی دیکھنا ہوتا ہے اور جس کودل چاہے بھی تو نہیں دیکھنا ہوتا‘ وہ تلخ حقائق از خود زندگی سے بھرے ہوتے ہیں‘پھر تلخی کو گوارا کرنا پڑتا ہے‘پھر صرف کڑواہٹ ہی تو نہیں یہاں تو زندگی کی خوبصورتیاں اتنی زیادہ ہیں کہ لوگ دوسرے کے تو کیا خود اپنے غموں کو بھی بھلا دیتے ہیں اور زندگی کی رعنائی میں کھو جاتے ہیں کوئی تو اس کشش کو اختیار کرلیتا ہے اور ایسا کہ اپنے اوپر اوڑھ لیتا ہے اور کوئی اس تلخابہ ئ شیریں کو غٹ غٹا غٹ پی جاتا ہے‘صبح سے شام تک ہونے والی تمام انسانی سرگرمیاں جو کہیں بھی ہوں تہذیب و ثقافت کہلاتی ہیں۔ آدمی جی نہ چاہے بھی تو اس پابندی کو اختیار کرتا ہے کیونکہ زندگی گزارنا ہے‘ویسے زندگی ہے مشکل چیِز اور ازحد مشکل ہے جو روزمرہ کے مسائل ہیں وہ ہر شہر ہر ملک کے مختلف ہیں مگر قلم کار ان مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں ان کو سامنے لاتے ہیں کبھی کسی کا خیال تک نہیں جاتا اور وہ مسئلہ ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے مگر کالم نگار اس کو زیرِ بحث لا کر ثابت کرتا ہے کہ جس سمت آپ متوجہ نہیں تھے وہ تو بہت اہم مسئلہ ہے لیکن یہ بھی ہے کہ کوئی معاملہ اتنی سنگین نوعیت کا ہوتا نہیں مگر اس کو عام لوگ بہت اہم سمجھ کر اس پر بحث و مباحثے کا ڈول ڈالتے ہیں اس پر ڈول بھر پانی نہیں ڈالتے کہ یہ آگ بجھ جائے مگر یہ کام کالم نویس کو کرناہوتا ہے وہ اس معاملے کو اپنی سمجھ کے ساتھ ثابت کرتا ہے کہ یہ مسئلہ اتنا خاص نہیں‘ہم چونکہ سڑکوں پر آوارہ گردی میں ملوث ہو کر آوارہ گرد کی ڈائری لکھتے ہیں اس ل ئے ہمیں یاد رہتا ہے کہ ہمارے راستے میں آنے والا فلاں مسئلہ کیا تھا اور کے پسِ پردہ حقائق کیاتھے جو پریس میں آئے ہی نہیں‘ ہمیں کوئی اگر کہے کہ آپ آج سیاست پر لکھیں تو ہم سے یہ نہ ہوگا۔ ”ان کا جو کام ہے وہ اہلِ سیاست جانیں۔ میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے“ ہمارا کام تو محبت کرنا اور محبت بانٹنا ہے‘ہم اگر کالموں میں عام معاشرتی مسائل پر لکھ لیتے ہیں تو اس کا براہِ راست تعلق ا س سے ہے کہ ہم اسی معاشرے کا حصہ ہیں جو لکھیں گے ظاہر ہے کہ ہم نے دیکھا ہوگا سمجھا ہوگا تب ہی جا کرہمارا قلم اس قابل ہوا کہ کچھ دو حرف لکھ سکے‘ یہاں تو ہر بندہ سیاست پربولتا ہے‘ خواہ اسے کچھ معلوم ہو نہ ہو۔حجرہ بیٹھک‘ اسی سیاسی گفتگو سے گونجتی رہتی ہے بلکہ سرکاری دفتروں میں تو اہلکار اپنے کام کاج چھوڑ کر سیاسی بات چیت او رملکی مسائل پر اپنے قیمتی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے عام پائے جاتے ہیں حالانکہ ان میں سے بیشتر کو ہماری طرح سیاست کے اتار چڑھاؤ اور اس کی تاریخ سے واقفیت ہی نہیں ہوتی۔ وہ صرف آج کے دن کو دیکھتے ہیں‘وہ ماضی کو نہیں دیکھتے کہ ماضی حال ایک دوسرے سے نتھی ہوتے ہیں‘ پھر انہی کو دیکھ داکھ کرمستقبل کے فیصلے ہوتے ہیں‘ وہ کیا مصرعہ ہے کہ ”مرا قلم تو امانت ہے میرے لوگوں کی“ ہم نے تو وہ لکھنا ہے جو عام آدمی کا مسئلہ ہے۔عام آدمی تو روٹی پانی اور کپڑا مکان وغیرہ کے لئے آج کل تو جیسے ترس گیا ہے‘ان پر کیوں نہ لکھا جائے ہم تو عوامی نمائندے ہیں ہم نے قلم اٹھانا ہے تو عام مسائل پراٹھانا ہے۔