وقت ہے کہ آم (مینگو) کھانے کے ساتھ اُس کی گٹھلیاں بھی شمار کی جائیں‘ یہاں گٹھلیوں سے مراد وہ عوامل و محرکات ہیں جن کی وجہ سے نقدآور آم کی پیداوار متاثر ہو رہی ہے اور پھل و سبزی کے برآمد کنندگان نے اِس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ ’رواں موسم گرما (سیزن)‘ میں آم کی پیداوار قریب بیس فیصد کم حاصل ہوسکتی ہے جس کی وجہ ’موسمیاتی تبدیلیوں‘ کے منفی اثرات ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں آم کی سالانہ پیداواری صلاحیت تقریباً 18 لاکھ میٹرک ٹن ہے تاہم موسمیاتی تبدیلی کے باعث خدشہ ظاہر ہے کہ رواں سیزن میں یہ پیداوار 15ملین میٹرک ٹن سے کم رہے گی اور یوں مجموعی طور پر ’بیس فیصد‘ پیداواری کمی کی وجہ سے برآمدات بھی متاثر ہوں گی ’آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن‘ کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ”پاکستان میں موسم سرما کا دورانیہ بڑھ رہا ہے اور موسم گرما کا آغاز تاخیر سے شروع ہونے کی وجہ سے آم کی پیداوار میں کمی آئی ہے اور دوسری اہم اور زیادہ توجہ طلب بات یہ ہے کہ موسمی تبدیلیوں کے ساتھ پھل و سبزی کی پیداوار کو متاثر کرنے والی بیماریوں یا اِن بیماریوں کی شدت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آم کی باغات کو لگنے والی عمومی بیماریوں سے نمٹنے کی جو صلاحیت درخت میں قدرتی طور پر پائی جاتی تھی‘ اُس میں درجہئ حرارت کی کمی بیشی کے باعث نمایاں کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ باغبانوں کی مذکورہ نمائندہ تنظیم نے زرعی ماہرین سے مطالبہ کیا ہے بنا مزید وقت ضائع کئے‘ موسمیاتی اثرات کا مقابلہ کرنے کے لئے آم کی خصوصی اقسام تیار کی جانی چاہیئں۔ پاکستان میں آم کی فصل کو جن موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کا سامنا ہے اور اُس کی وجہ سے پیداوار میں ممکنہ طور پر بیس فیصد کمی کا خدشہ بھی ہے جبکہ کچھ ماہرین کے مطابق رواں سال آم کی پیداوار بیس فیصد سے بھی زیادہ کمی ہو سکتی ہے تو جب یہ صورتحال زرعی ماہرین کے سامنے رکھی گئی تو اُنہوں نے سائنسی طریقوں سے باغبانی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ”آم کی پیداوار روائتی طریقوں سے باغبانی کے باعث بھی متاثر ہو رہی ہے۔ نیا باغ لگانے کے لئے قطار در قطار ستائیس فٹ اور پودے سے پودے کا فاصلہ کم سے کم بائیس فٹ رکھا جانا چاہئے۔ اِسی طرح آم کی بہتر پیداوار حاصل کرنے کے لئے شاخ تراشی کا عمل لازمی ہے جس میں گھنی‘ بیمار‘ خشک اور مطلوبہ چھتری سے تجاوز کرنے والی شاخوں کی بروقت کٹائی ہونی چاہئے۔ شاخ تراشی کا بہترین وقت کسی درخت سے پھل حاصل کرنے (جسے اصطلاحاً پھل کی برداشت کہا جاتا ہے) کے فوراً بعد کا ہے لیکن بیمار اور خشک شاخوں کی کسی وقت بھی کٹائی کی جا سکتی ہے۔ تیسری اہم بات آم کے پودے کی چھتری کے نیچے زمین کا تین چوتھائی حصہ خشک نہیں رہنا چاہئے۔ ایسی صورت میں فوراً آبپاشی کی ضرورت ہوتی ہے تاہم آبپاشی کتنی کی جائے اور اس کا دورانیہ کتنا ہو‘ اِس کا تعلق جگہ‘ زمین اور کسی علاقے کے درجہ حرارت پرمنحصر ہے اور چوتھی اہم بات یہ ہے کہ آم کا بہترین وقت پھل کی برداشت کے بعد کا ہے۔ جس میں ستر فیصد نائٹروجن‘ سو فیصد فاسفورس اور پچاس فیصد پوٹاش نامی کھادوں کا استعمال ہونا چاہئے‘ باقی ماندہ نائٹروجن پھول آنے پر اور پوٹاش پھل بننے کے بعد ڈالی جاتی ہے۔ اگر باغبان درختوں کی صحت و ضروریات کا خیال رکھیں تو درختوں کی موجودہ اقسام بھی موسمیاتی اثرات کا مقابلہ کر سکتی ہیں۔“باغبانوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے تشویش ہے کیونکہ اِس سے صرف ’آم‘ ہی نہیں بلکہ دیگر پھل و سبزی کی فصلیں بھی متاثر ہیں۔ زرعی تحقیقی ادارے محدود وسائل میں ’آم کے کاشتکاروں کو وسائل و آگاہی فراہم کرنے اور اُنہیں موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے بچانے میں مدد کر سکتے ہیں۔ بدلتے ہوئے موسمی پیٹرن ’آم کی فصل‘ پر براہئ راست اثر انداز ہوتے ہیں‘ جس پر تحقیقی اداروں اور صوبائی محکمہئ زراعت کی جانب سے فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ آم کے کاشتکاروں کی مدد کی جا سکے اور موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کم کئے جا سکیں۔ رواں سال آم کی برآمد کا ہدف ”ایک لاکھ ایک سو پچیس ہزار میٹرک ٹن“ مقرر کیا گیا ہے اور اگر یہ ہدف حاصل کر لیا جاتا ہے تو پاکستان کو تقریبا 10 کروڑ (100 ملین) ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوگا۔ ہر سال آم کی برآمد ’20مئی‘ سے شروع ہوتی ہے۔ پاکستانی آم کے بڑے خریداروں میں خلیجی عرب ممالک‘ ایران‘ وسطی ایشیائی ممالک اور برطانیہ شامل ہیں۔ اصولاً ہونا تو یہ چاہئے کہ اگر پاکستان کے آم اپنی لذت‘ ذائقے‘ خوشبو اور طبی خصوصیات کے لحاظ سے منفرد ہیں اُور اِنہیں اِنہی وجوہات کی بنا پر پسند بھی کیا جاتا ہے تو حکومت برآمدات کے نکتہئ نظر سے آم و دیگر پھلوں کی زیادہ پیداوار کے لئے باغبانی کی سرپرستی کرے۔ ہاتھوں ہاتھ بکنے والے پھلوں کی اہم مارکیٹوں میں یورپ‘ کینیڈا‘ ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور جاپان شامل ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ موسمیاتی اثرات کی وجہ سے صرف آم کی پیداوار ہی کم نہیں ہو رہی بلکہ اِس کی پیداوار کا معیار بھی متاثر ہو رہا ہے اور آب و ہوا کے اِن منفی اثرات سے پیدا ہونے والے مسائل بھی حل طلب ہیں۔ برآمدات کو متاثر کرنے والا ایک اور محرک مال برداری‘ پیکیجنگ اور نقل و حمل کے زیادہ اخراجات کے علاؤہ امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال‘ سیاسی عدم استحکام بھی ہیں جن کی وجہ سے آم کی ترسیل میں خلل پیدا ہوتا ہے اور یہ عوامل آم کی برآمدات کے لئے ’اہم چیلنجز‘ ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں آم کی پیداوار کا 70 فیصد پنجاب سے‘ 29 فیصد سندھ سے اور ایک فیصد خیبر پختونخوا سے حاصل ہوتا ہے جبکہ برآمد ہونے والا پچاس فیصد پاکستانی آم سمندری راستے‘ پینتیس فیصد زمینی راستے اور پندرہ فیصد فضائی ذرائع سے برآمد کیا جاتا ہے۔