درپیش مالیاتی چیلنجز عمومی یا معمولی نہیں۔ اکیسویں صدی میں‘ یہ بات ناقابل یقین لگتی ہے کہ ملک میں بالغ خواتین کی آبادی کا صرف اکیس فیصد ہی ’بینک اکاؤنٹس‘ رکھتا ہے۔ پاکستان کی نصف آبادی خواتین پر مشتمل ہے اور یہ حقیقت کہ ان کے آدھے سے بھی کم افراد قومی معیشت میں ’مالی شمولیت‘ رکھتی ہے‘ قومی پالیسی سازوں کے لئے تشویش کا باعث ہونی چاہئے۔ خواتین زیادہ تر غیر رسمی شعبے میں کام کرتی ہیں اور اکثر اپنی تنخواہیں نقدی کی صورت وصول کرتی ہیں اور اس لئے اِنہیں بینک اکاؤنٹس کھولنے کی ’ضرورت‘ پیش نہیں آتی۔ اس کے علاؤہ‘ زیادہ تر معاملات میں‘ عورتیں گھریلو آمدنی پر انحصار کرتی ہیں‘ جو عام طور پر انہیں دی جاتی ہے جسے ہم خاندان کا سربراہ کہتے ہیں لیکن مالی خود مختاری کا یہ فقدان خواتین کو ترقی کے مواقعوں سے دور کرتا ہے۔ مثال کے طور پر‘ بینک اکاؤنٹ کے بغیر خواتین کے پاس ایک سال کے دوران بچت یا کمائی گئی رقم کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا۔ ڈیجیٹل بینکنگ متعارف ہونے کے بعد بینکاری باسہولت ہو گئی ہے جس سے خواتین کو فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ آن لائن موبائل بینکنگ ایپلی کیشنز کے متعارف ہونے کے ساتھ‘ خواتین کی قومی معیشت میں مالی شمولیت کے امکانات میں اضافہ ہوا ہے لیکن اِس اضافے (سہولت) سے خاطرخواہ فائدہ نہیں اُٹھایا جا رہا جس کی ایک وجہ شعور کی کمی بھی ہے۔ سال 2022ء کے اختتام پر خواتین کے بینک اکاؤنٹس کی تعداد 2 کروڑ 48 لاکھ سے زیادہ تھی جو سال 2021ء کے مقابلے 20 فیصد زیادہ ہے یعنی ایک سال میں 20 فیصد اکاؤنٹ ہولڈرز خواتین کا اضافہ ہوا ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے بھی لوگوں کے لئے مختلف اکاؤنٹس متعارف کرائے ہیں۔ سینکڑوں دستاویزات کے ساتھ بینک جانے کی بجائے اب لوگ اپنے شناختی کارڈ یا موبائل فون نمبر کو مالی لین دین کے لئے اکاؤنٹ نمبر کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں۔فنڈز کی باسہولت اور آسان منتقلی خواتین کے لئے سودمند ہے کیونکہ وہ آن لائن کاروبار میں متعدد لین دین کے چینلز استعمال کر سکتی ہیں۔ اِس انقلاب سے گھریلو صنعت کو فروغ ملنا چاہئے لیکن خاطرخواہ رہنمائی موجود نہیں ہے۔ آن لائن بینکاری سے استفادہ نہ کرنے کی ایک وجہ خواندگی کی کمی اور دوسری وجہ شہری و دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ کی غیرمعیاری سہولیات ہیں۔ یہ سب وہ مسائل ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان اُن ممالک میں سے ایک ہے جہاں موبائل بینکاری میں خواتین صارفین کی تعداد کم ہے اور زیادہ سے زیادہ خواتین کے لئے قومی نظام میں مالی شمولیت اُس وقت تک خواب ہی رہے گا جب تک کہ اُن کے پاس ایسی ڈیوائسز (آلات) نہ ہوں جن کے ذریعے ادائیگیاں یا وصولیاں کی جا سکتی ہیں۔ فیصلہ سازوں کو سمجھنا ہوگا کہ جب تک خواتین آن لائن وسائل سے نہیں جڑیں گی اُس وقت تک رسمی یا غیررسمی بینکاری کی طرف اِن کے راغب ہونے کا امکان بھی کم ہی رہے گا‘ اس سلسلے میں ڈیجیٹل مالی شمولیت خواتین کو زیادہ خود مختار بنانے اور بغیر کسی مداخلت اپنے مالی معاملات کی اصلاح کو آسان بنا سکتی ہے۔