مچھلیاں ہی مچھلیاں 

 م ئی کا مہینہ مائل بہ اختتام ہے۔مگر موسم کی دھیمی دھیمی ٹھنڈک تاحال برقرار ہے۔موسمیاتی تبدیلیاں اور پُر اسرار تبدیلیوں نے ہمیں فائدہ ہی دیا ہے۔کیونکہ آنے والی گرمی کے خوف سے بدن میں سنسنی دوڑ جاتی ہے۔فکر مندی چٹکیاں کاٹتی ہے۔ایک تو موسم کی گرانی کی طرف دھیان چلا جاتا ہے اور دوسرے بجلی کے پھڑپھڑاتے ہوئے پرچے آنکھوں کے آگے ناچنے لگتے ہیں۔ پھر آیا دن اخبار میں بجلی کے نرخ زیادہ ہوجانے کی خبریں بھی دل دہلا دیتی ہے۔خیر چھوڑیں یہ باتیں تو لگی رہیں گی کیونکہ یہ ایک دن کاقصہ نہیں۔ یہ تو ہر گھر کی داستان طلسمِ ہوش ربا ہے۔کون سا گھر کون سا ادارہ دکان اور کون سا دفتر ہے جہاں بجلی کی ان کارستانیوں سے چنگاریاں نہ نکلتی ہوں۔آج کل کی فضا میں مچھلیوں کا چلن بہت عام ہے۔مگر یہاں تو مئی میں بھی مچھلیوں کی رنگا رنگی اور بہار ہے جو اپنے جوبن پر ہے۔کھانے والے شوقین حضرات غول در غول ہر مچھلی گھر کے جلتے ہوئے کڑاہوں کے آس پاس بال بچوں سمیت بھی منڈلی جمائے بیٹھے ہوتے ہیں۔ ہوٹل میں پکانے والے کو مچھلی کاآرڈر دے کر گپ شپ میں مشغول نظر آتے ہیں۔ ہاں اگرموسم حسین ہو جائے اور البیلی رُت ہو تیز مینہ ہو یا رجم جھم کا سا عالم ہو تو ان دکانوں پر شہریوں کا رش بڑھ جاتا ہے۔ہر مچھلی ہاؤس کی پارکنگ میں بڑی بڑی گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں۔ہمارے بھائی بند تو کھانے پینے کے اتنے رسیا ہیں کہ جون جولائی اگست میں بھی دکانوں میں رش ہوتا ہے۔حالانکہ مچھلی ایک گرم غذا ہے۔مگر یہ لوگ کہاں چُوکتے ہیں۔ ویکنڈ ہو تو دوڑے چلے جاتے ہیں۔جمعہ ہو یا ہفتہ اتوار ان کے ہاتھوں کوئی ہٹ خالی نظر نہیں آئے گا۔ لیکن اتنا ہے کہ آج کل خاص ان دنوں گاہکوں کا رش کم تو ہوا ہے مگر وہ موسم کی گرم ہونے کے کارن نہیں بلکہ گرانی کے طوفان کی وجہ سے ہے۔مگران آنکھوں نے دیکھا ہے کہ مہنگائی جتنی بھی ہوجائے پُر عیش لمحات کے گزارنے والے مچھلی کھانے سے پیچھے نہیں ہٹتے۔شہر کے موٹر وے کے برابر موڑ سے لیں اور پشاور کی مغربی حدود کی جانب ہر جا ایک جہانِ دیگر ہے۔پھر رنگ روڈ سے ہٹ کر چارسدہ روڈ پر تو مچھلیاں یوں ہیں کہ جیسے دریا سے نکل کر پانی کے ریلے کے ساتھ سڑک پرکھیلنے کودنے کو آئی ہوں۔ پھر ورسک روڈ پر الگ جھونپڑیاں بنی ہوئی ہیں۔مچھلی کا ریٹ بھی فی کلو زیادہ نہیں ہے۔ چکن سے تو یہ مہنگی غدا بہت سستی پڑتی ہے۔مگر بات لذتِ کام و دہن کی ہے۔جس کو جو پسند ہو وہ کھائے اور جائے اور اگلے ہفتے میں دوبارہ آ جائے۔ایسے میں دوستوں یاروں کے پروگرام الگ ہوتے ہیں۔ خواہ پرائیویٹ ادارے ہو ں یا سرکاری دفاتر کے اہکاران ہوں افسر ہوں یا افسرِ بکارِ خاص ہوں یا کسی پوسٹ پر ہوں سب گپ شپ کابہانہ بنانے انھیں پرانے طرز کی جھونپڑیوں کا رخ کرتے ہیں۔پھر موٹر وے سے اُتر کر کوہاٹ روڈ کی جانب  اور پھر یونیورسٹی کے ٹول پلازہ تک مچھلیوں کے کاروبار کا سلسلہ اس طرح دراز ہے کہ جیسے کسی کے گیسو درازہوں اور دراز بھی ہوں مگر بکھرے ہوں بلکہ بکھرے پڑے ہوں۔ہو سکتا ہے کہ شاعر نے اسی وجہ سے گیسوؤں کا ذکر کر دیا ہو”مچھلیاں جال سمجھ کر جو آگئیں باہر۔کھل گئے کس کے یہ دریا کے کنارے گیسو“۔اس لئے  ”اب اس کے خال سے بڑھتے ہیں گیسوؤں کی طرف۔سمٹ کے دیکھ لیا ہے بکھر کے دیکھتے ہیں“ بلکہ ہم نے اس شعر سے پہلے ہی شہر کے چاروں اور مچھلیوں کے تعاقب میں بکھر کر دیکھا ہے ہمیں تو ہر جگہ مچھلیاں ہی نظرآتی ہیں۔ایک مچھلی ہزاروں بچوں کی پیدائش کا سبب بنتی ہے۔ پھر سمندر کے اندر بھی ان ہزاروں لاکھوں کروڑہا مچھلیوں کی خوراک یہی چھوٹی مچھلیاں ہوتی ہیں۔مگر نہ تو سمندر میں ہزاروں سالوں سے مچھلیاں کم ہوئیں اور نہ ہمارے دریاؤں اور چھوٹی موٹی نہروں سے ان کی دستیابی میں کمی آئی ہے  کیونکہ مچھلیاں ہر قسم کے شک و شبہ سے بالا تر ہوتی ہیں اور اس میں دیگر غذاؤں کی طرح ملاوٹ اور ناقص ہونے کا خطرہ کم ہی ہوتا ہے اس لئے دھڑلے سے کھائی جاتی ہیں۔ حالانکہ وافر مقدار میں ہوتی ہیں مگر کھانے میں مزا بھی دیتی ہیں اور آنکھیں بند کر کے کھایا جانے والا کھانا ہے۔آنکھیں ضرور میچ لیں مگر کانٹوں کا خیال رکھنا ہوگا۔بعض دکانوں پر کراچی کی ایک خاص مچھلی روزانہ ہوائی جہاز سے اُتار کر دن کو گیارہ بجے تک فروخت کی جاتی ہے۔ مچھلی کے وہاں پہنچنے سے پہلے ا س کے گاہک وہاں کھڑے ہوتے ہیں۔