آج کا دور مشینوں کے ذریعے مو سمی پیشگو ئی کا دور ہے سائنس اور ٹیکنا لو جی کی تر قی نے ہواؤں کی رفتار کو ناپنا شروع کیا ہے مگر 100سال پہلے ایسی کوئی ٹیکنا لو جی دستیاب نہیں تھی ہماری نئی نسل حیرت میں ڈو بی ہوئی ہے کہ اُس وقت لو گ کس طرح آنے والے موسموں کا اتہ پتہ معلوم کرتے ہونگے وہ مو سمی پیشگو ئی کے فن لطیف سے واقف ہو نگے بھی یا نہیں؟ خیبر پختونخوا کی پہا ڑی وادیوں میں سے جن علا قوں کو آج کل کوہستا ن اور چترال، دیر وغیرہ کہا جا تا ہے ان وادیوں کے ساتھ مشرقی سمت میں پھیلے ہوئے غذر، یا سین، اشقومن، گلگت،ہنزہ، بلتستان، داریل اور تا نگیر میں صدیوں سے مو سمی پیش گوئی کا مر بوط اور آزمو دہ نظام مو جو د رہا ہے زیا دہ دور کی با ت نہیں 1961ء میں پہاڑی علا قوں کے لو گ جا نتے تھے کہ کس تاریخ کو بارش ہو گیاس تاریخ سے پہلے دودھ پلا نے والے مویشیوں کو بچھڑوں‘ بچھیروں اور میمنوں کے ساتھ گرما ئی چرا گاہوں سے اتار کر گاؤں لا تے تھے بارش تھمنے کے بعد واپس جا کر چراگاہ میں چھوڑ کے آتے تھے وہ کھیت اور کھلیا ن کی بروقت حفا ظت کا انتظام کرتے تھے چرا گاہوں سے کمزور، بیمار اور دودھ پینے یا پلا نے والے مویشیوں کو محفوظ مقا مات پر منتقل کر تے تھے‘مو سم سرما کے لئے اشیائے ضروریہ کا سٹاک جمع کر نے کی خاطر بارشوں اور برفانی ہواؤں کی پیشگو ئی کر نیوالے ماہرین سے رائے لیتے تھے روایتی علم کے مطابق مو سمی پیشگوئی کے دو طریقے تھے پہلا طریقہ چاند اور سات ستاروں کے جھر مٹ یعنی خو شہ پروین کی گردش میں دونوں کے ملا پ کی تاریخ کا تعین تھا ملا پ کی یہ تاریخ قمری ما ہ کی 29تاریخ سے الٹی گنتی میں آتی ہے اور ہر قمری ما ہ کی طاق تاریخوں کو ہوا کرتی ہے مو سمی پیشگو ئی کا دوسرا طریقہ سورج کی گردش اور غروب آفتا ب کے مقا مات کا تعین ہے یہ بہت پیچیدہ نظا م ہے جس میں ہر گاؤں کا مقا می نقشہ ہو تا ہے اس نقشے کی مدد سے جو پیشگو ئی کی جا تی ہے اس کا اطلا ق پوری وادی پر ہو تا ہے مثا ل کے طور پر کمراٹ، کلا م اور شندور کو ملا نے والی وادی لا سپور میں با لیم ایک گاؤں ہے اس گاؤں کے جنوب میں پہاڑی ڈھلوان پر مو جود چشموں اور چٹا نوں کے نا موں پر مبنی نشانات ہیں جو سینہ بہ سینہ یا د داشت میں چلی آرہی ہیں غروب آفتاب کے وقت سورج کا سایہ ہر روز ان میں سے کسی نشا ن سے گذر تا ہے یا کسی بھی دو نشا نات کے درمیان ہو تا ہے ان میں سے ہر نشان کا نا م ہے مثلاً پھوو‘ غوزوکھر‘ اوسوڑی‘سرداوائے وغیرہ سال ہا سال کے تجربے سے ما ہرین نے اندازہ لگا یا ہے کہ فلاں جگہ بارش کے لئے مخصوص ہے فلاں جگہ پر سورج آجا ئے تو سیلا ب کا خطرہ ہو سکتا ہے فلا ں جگہ پودا لگا نے اور فصل کی کا شت کے لئے مو زوں ہے چنا نچہ پوری وادی کے لو گ اس حساب سے گلہ با نی اور کھیتی باڑی کا کا م انجام دیتے ہیں یہ روایتی حکمت اور علم ہے کینڈا میں اس کو ٹریڈیشنل نا لج کے نا م سے با قاعدہ علم کا شعبہ قرار دیاگیا ہے جما ل الدین افغا نی نے اس پر ایک رسا لہ بھی شائع کیا ہے ہماری یونیورسٹیوں اور جا معتہ الرشید جیسے بڑے اداروں میں اس علم پر تحقیق کی ضرورت ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
روم کی گلیوں میں
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ترمیم کا تما شہ
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ثقافت اور ثقافت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
فلسطینی بچوں کے لئے
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
چل اڑ جا رے پنچھی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ری پبلکن پارٹی کی جیت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
10بجے کا مطلب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
روم ایک دن میں نہیں بنا
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
سیاسی تاریخ کا ایک باب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی