آب و ہوا کی تبدیلی کرہئ ارض پر انسانیت کی بقاء کے لئے ’بڑا خطرہ‘ ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ دنیا کو اچانک موسمیاتی تبدیلیوں کا احساس ہوا ہے بلکہ یہ بات ’انیس سو ستر‘ کی دہائی میں بھی سامنے آئی اور موسمیاتی ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ اگر اِسی رفتار میں ہوا میں ’ماحول دشمن‘ گیسوں کا اخراج جاری رہا تو کرہ ارض کا ماحولیاتی تنوع متاثر ہوگا لیکن صنعتی ترقی کو ماحولیاتی تحفظ پر ترجیح دی گئی اور صنعتی ترقی سے حاصل ہونے والے مالی وسائل کا استعمال کرتے ہوئے ’ماحول دوستی‘ کی اہمیت اُجاگر کرنے والی آوازوں کو دبایا گیا۔ ماحول دشمنی کی اِس منظم کوشش میں صنعتوں نے صنعتوں اور ممالک نے ممالک کا ساتھ دیا۔ کہیں پیسہ تو کہیں اثر و رسوخ کا استعمال کیا گیا تاکہ منافع بخش حکومتوں اور صنعتوں کا پہیہ بنا رکاوٹ چلتا رہے۔ خاص نکتہ یہ ہے کہ ماحول دوست ماہرین اور آب و ہوا سے متعلق علوم میں غوروفکر کرنے والے ’سائنسدانوں‘ کو حملوں کا نشانہ بنایا گیا اور ان کے کام کاج اور نتائج کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے والی مہمات بھی چلائی گئیں جس کے لئے ذرائع ابلاغ کا استعمال کیا گیا اور ماحول دشمن ایندھن کا استعمال جاری رکھا گیا جس کے خلاف خاطرخواہ عوامی ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا اور عوامی رائے فوسل ایندھن کے خلاف تقسیم ہو گئی۔ خلاصہ یہ ہے کہ آب و ہوا کے تحفظ کی مخالفت کرنے والی صنعت نے جنگی و ہنگامی بنیادوں پر تحفظ ماحول سے انکار کیا۔ گمراہ کن اور غلط معلومات فراہم کیں اور حکومتی سطح پر تحفظ ماحول کی اہم ضرورت کو تاخیر پسندی کی وجہ سے ملتوی کیا گیا جس کی وجہ سے زیادہ بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی۔ دنیا شدید گرمی اور شدید موسموں کی صورت آزمائش سے گزر رہی ہے۔ ایک طرف صنعتوں اور ترقی یافتہ ممالک کے مفادات ہیں تو دوسری طرف سب کرہئ ارض کا مستقبل اور مفاد۔ عام آدمی کے لئے موسمیاتی تبدیلیوں کے محرکات سمجھنا مشکل ہیں لیکن جو لوگ اِس متعلق حقائق اور اِس عمل کے اثرات سے واقف ہیں‘ وہ عوام کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ صنعتوں کو ماحول دشمن ایندھن کے استعمال سے روکا جا سکے خوش آئند بات یہ ہے کہ امیر اور مالی طور مستحکم معیشت رکھنے والے ممالک نے مستقبل قریب میں ماحول دوست (کاربن نیوٹرل) بننے کا عہد کیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اِس سے دنیا کو کیا فوائد حاصل ہوں گے اور ماحول کی خرابی جس انتہا تک پہنچ چکی ہے تو کیا اِسے درست کرنا ممکن بھی ہوگا؟ یہاں بات ماحول دوستی سے متعلق ایک دوسرے کے متضاد مؤقف کی نہیں بلکہ ایک ایسے مشترک مستقبل کا ہے جس میں ایک عام آدمی اور کھربوں مالیت کی صنعتوں کے مفادات ایک ہو گئے ہیں۔ماحول دوست اصلاحات کی عار میں اگر ماحول دشمن ایندھن کا استعمال جوں کا توں جاری رہتا ہے پاکستان میں اکتوبر دوہزاربائیس میں دیکھا گیا کہ مون سون بارشوں کے غیرمعمولی تسلسل اور برفانی تودوں کے پگھلنے سے سیلاب آیا جس کے منفی اثرات چھ ماہ سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود بھی زرعی معیشت و معاشرت رکھنے والے دیہی علاقوں پر دیکھے جا سکتے ہیں ماحول دوستی کیلئے جنگی بنیادوں پر عمل کی ضرورت ہے لیکن ایسا صرف اُسی صورت ممکن ہے جب ممالک ایک دوسرے کو اپنا دشمن تصور کرنے کی بجائے اُس بڑی مشکل کو اپنا ’دشمن‘ سمجھیں جس نے پورے کرہئ ارض کے مستقبل کو خطرے سے دوچار کر رکھا ہے۔ موسم کبھی بھی انسانوں کی دسترس میں نہیں رہے لیکن اِنہیں نقصان پہنچانا اِنسانوں کے ہاتھ میں ہے اور یہی وہ مرحلہئ فکر ہے جہاں ترقی یافتہ ممالک اپنے علم‘ تجربے‘ مالی وسائل اور معاشی ترقی سے حاصل ہونے والی دیگر خوبیوں کو نسل اِنسانی کی بقا کے لئے ’بطور ہتھیار‘ اِستعمال کریں۔ دنیا میں ایسا کوئی بھی قانون نہیں‘ جس میں ماحول دشمن اِیندھن کے اِستعمال کو روکا جا سکے لیکن اگر ذاتی مفادات کی بجائے عالمی ذمہ داری کا احساس کیا جائے تو بگڑے بھپرے ماحول کو درست کرنا (اصلاح) اب بھی ممکن ہے۔