کھیلوں کی دنیا سے جڑی دلچسپ باتیں 

کرکٹ کو کسی زمانے میں gentleman's  game جنٹل مینوں کا کھیل کہا جاتا تھا پر یہ اس زمانے کی بات ہے کہ جب کرکٹ میں ون ڈے اور ٹوینٹی ٹوینٹی کا اجراء نہیں ہوا تھا اور صرف ٹیسٹ میچ کھیلے جاتے تھے  جب 1975 ء میں ون ڈے کرکٹ کا اجراء کیا جانے لگا تو دنیا بھر کے کئی سینئر کرکٹ کھلاڑیوں نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا  کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کرکٹ کا کھیل کمرشلائز  ہو کر کرپشن کا شکار  ہو جائے‘وقت نے ان کے خدشات کو درست ثابت کیا اور دنیا نے دیکھا کہ کئی نامور کھلاڑی بال ٹیمپرنگ اور میچ فکسنگ میں رنگے ہاتھوں پکڑے گئے‘ ان میں   بعض قید بھی ہوئے اور ان کے کھیل پر پابندی بھی لگا دی گئی اور کئی کھلاڑیوں پر بھاری جرمانہ بھی عائد ہوااور سزائیں بھی بھگتیں۔کرکٹ کے بلے باز1960 ء کے اوائل تک ہیلمٹ کے بغیر بلے بازی کیا کرتے تھے‘ہوا یوں کہ بھارتی کرکٹ ٹیم کے ایک اوپننگ بیٹسمین جن کا نام تھا ناری کنٹریکٹر اور جو لیفٹ ہینڈر  left hander تھے۔1960 ء کے اوائل میں ویسٹ انڈیز کے بھارت کی کرکٹ ٹیم کے  دورے کے دوران میزبان ٹیم کے ایک فاسٹ بالر کی گیند سے جو ان کے سر پر لگی سخت زخمی ہو گئے‘خوش قسمتی سے وہ موت سے تو بچ گئے پر ان کا کرکٹ کا کیریئر اس کے بعد ہمیشہ کیلئے  ختم ہو گیا اس واقعے کے بعد پھر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے بلے بازوں اور وکٹ کیپر‘دونوں کیلئے ہیلمٹ کا استعمال لازمی قرار دے دیا۔کرکٹ  کے مبصرین کی متفقہ رائے یہ ہے کہ فضل محمود جیسا خوبرو کرکٹر پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے دوبارہ نہیں دیکھا وہ اگر کرکٹر نہ ہوتے تو بالی ووڈ  یا لالی ووڈ میں یقینی طور پر ایک کامیاب فلم ہیرو ضرورہوتے ان کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ 1954 ء میں دورہ انگلستان کے دوران انہوں نے اوول کرکٹ ٹیسٹ گراونڈ پر عمدہ بالنگ کا مظاہرہ  کرتے ہوئے چوتھے ٹیسٹ میچ میں مجموعی طور پر بارہ  وکٹیں لیں اور پاکستان کی جیت میں نمایاں کردار ادا کیا ان کے لیگ کٹرزleg cutters  کو انگلستان کے بلے باز نہیں کھیل سکتے تھے‘ ان کی لاجواب بالنگ سے جب پاکستان نے انگلستان کو ہرایا تو اس کے بعد  فوراً پاکستان کرکٹ ٹیم کو   ٹیسٹ میچ سٹیٹس test match status  مل گیا‘حفیظ کاردار کے بارے میں کرکٹ کے مبصرین کا کہنا ہے کہ ان جیسا کپتان پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے نہیں دیکھا‘ وہ تھے تو ایک اوسط درجے کے آل راونڈر پر بطور منتظم اور کپتان ان کا جواب نہ تھا‘پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے تمام کھلاڑی ان سے خائف بھی رہتے اور ان کی بہت عزت بھی کرتے کہ وہ ڈسپلن کے بارے میں کسی سے کوئی سمجھوتہ نہ کرتے تھے‘ ان کی قیادت میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے کافی کامیابیاں حاصل کیں‘حنیف محمد کے علواہ ان کے چار بھائیوں نے بھی پاکستان کی کرکٹ ٹیم میں کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا ان کے نام ہیں‘ وزیر محمد‘ رئیس محمد‘ مشتاق محمد اور صادق محمد‘ حنیف محمد کے صاحبزادے شعیب محمد نے بھی پاکستان کرکٹ ٹیم کا ممبر بننے کا اعزاز حاصل کیا۔برصغیر میں  پاکستان کی کرکٹ ٹیم  کے حنیف محمد اور بھارت کے سنیل گواسکر اور سچن ٹنڈولکر کے درمیان  قدرے مشترک یہ تھی کہ اپنے  اپنے  وقتوں میں اپنی ٹیم کیلئے ایک لمبے عرصے  تک بطور اوپننگ بیٹسمین کھیلے‘ وہ تینوں پستہ قد تھے اور لمبی لمبی اننگز کھیلنے میں مہارت رکھتے تھے‘ان میں حنیف محمد تو رحلت فر ما گئے ہیں‘ البتہ باقی دو  ابھی بقید حیات ہیں۔دنیاے کرکٹ نے آسٹریلوی بلے باز ڈونلڈ بریڈمین جیسا بلے باز نہیں دیکھا،ان کی بیٹنگ کی اوسط 99.99 تھی جو آج تک کوئی دوسرا بلے بازحاصل نہیں کر سکا‘اب ذرا ذکر ہو جائے ہاکی کا‘ برصغیر نے اس کھیل میں کئی نامور کھلاڑی پیدا کئے‘  ان میں لال شاہ بخاری جعفر اور  دھیان  چند کے  نام قابل ذکر ہیں‘ دھیان چند  بھارتی ہاکی ٹیم میں سینٹر فارورڈ کی پوزیشن پر کھیلتا تھا‘ایک دفعہ جب کھیل کے دوران اسے گیند مل جاتی تو پھر مخالف ٹیم کے کھلاڑی اس سے وہ بال چھین نہ سکتے تھے‘ ایکبار تو ایسا بھی ہوا کہ اس کی ہاکی سٹک hockey stick کا یہ شک دور کرنے کیلئے معائنہ بھی کیا گیا کہ کہیں اس نے اپنی سٹک پر گوند /سریش تو نہیں لگا رکھی  کیونکہ ایک مرتبہ جب اسے گیند ملتی تو وہ اس کی ہاکی سٹک کے ساتھ ایسی چپکی رہتی کہ جیسے کسی نے اسے گوند لگا دی ہو‘ 1936 ء میں برلن کے ورلڈ اولمپکس میں بھارتی اور جرمنی کی ہاکی ٹیم کا فائنل میچ ہو رہا تھا جو ہٹلر بھی دیکھ رہا تھا وہ دھیان چند کے کھیل سے اتنا متاثر ہوا کہ میچ کے اختتام پر اس نے اسے جرمنی کی شہریت کی پیشکش کی اور جرمنی کی آرمی میں بطور کرنل تعنیاتی کی آ فر بھی کی‘ان دنوں دھیان چند بھارت کی آرمی میں بطور صوبیدار کام کر رہا تھا پر دھیان چند نے ان دونوں پیشکشوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا‘ہالینڈ نے اس عظیم ہاکی کے کھلاڑی کو خراج تحسین اس طرح پیش کیا ہے کہ ہالینڈ میں اس کا مجسمہ اس طرح بنا کر ایک  سڑک کے چوراہے  پر نصب کیا گیا ہے  کہ اس کے دونوں ہاتھوں میں ھاکی کی سٹکز پکڑوا دی  گئی ہیں۔پشاور صدر کے ایک نواحی علاقے نواں کلے کو یہ شرف حاصل ہے کہ اس نے دنیا کو سکوائش کے کھیل کے سب سے بہترین کھلاڑی دئیے کہ جن کا ثانی آج بھی دنیا میں پیدا نہیں ہوا‘ہمارا اشارہ ہاشم خان‘ اعظم خان‘روشن خان‘ ہدایت جہاں‘ قمر زمان جہانگیر خان اور  جان شیر خان کی طرف ہے کہ جنہوں  نے 1950 ء کی دہائی سے لے کر1990 ء کی دہائی تک مختلف اوقات میں دنیائے سکوائش پر بلا شرکت غیرے راج کیا۔